ہندستان کے موجودہ حالات میں ہجرت کی بات

مولانا عظیم اللہ صدیقی قاسم
میڈیا انچارج جمعیۃ علماء ہند

بھارت کے موجودہ حالات بھی میں شرعی ہجرت کی بات نہیں آنی چاہیے۔ایسے کوئی کچھ کہہ دے اور لکھ دے تو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لکھنے والا کون ہے اور اس کی کیا علمی حیثیت ہے ۔ کم ازکم وہ کسی معتبر ادارے سے عالم یا مفتی ہو ۔موجودہ دور میں بات بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور تل کا تاڑ بن جاتی ہے۔لکھنے والا کوئی ہو اگر بات آپ کے من کے مطابق ہے تو آ پ اسے خوب شےئر کرتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ لکھنے والے نے فتنہ کھڑا کرنے کی نیت کی ہو۔
اگر علمی اور تحقیقی پیمانے پر ہجر ت کی بات کی جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کے دور میں بھی کسی عالم نے ہجرت کو لازم قرار نہیں دیا تھا ۔مغلیہ دور کے زوال کے بعد ۱۸۰۶ء میں اُس زمانہ کے فقیہ اعظم، عالم ربانی حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہٗ العزیز نے برملا فتویٰ صادر فرمایا کہ ہندستان دارالحرب ہوگیا ہے‘‘ (فتاویٰ عزیزی، جلد اوّل، ص۱۷) اسی طرح ۱۸۵۷ء کے بعد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس اللہ سرہٗ العزیز سے استفسار کیا گیا، آپ کا جواب بھی یہی تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان اکابر رحمہم اللہ نے کہیں بھی مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی دعوت نہیں دی ۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تو ہندستان کو اس وقت بھی دارالامان ہی فرماتے تھے ۔حالاں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کی عزت و آبرو زیادہ خطرے میں تھی اور اس کے مقابلے ترکی اور ایران کے پڑوسی ممالک میں مسلم بادشاہوں اور سلطانوں کی عظیم حکومتیں قائم تھیں اور آزادی وطن کے بعد جب مسلمانوں کو کسی ملکہ کے عطا کردہ مذہبی حقوق نہیں بلکہ خود اس کے اپنے حقوق حاصل ہیں توہجرت کی بات کیسے کی جاسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی ہجرت مدینہ کو بنیاد بناتے ہیں اور چند ایسی احادیث بھی پیش کرتے ہیں جن میں غیر مسلم اور مشرکین کے ساتھ رہنے کی نفی کی گئی ہے ، مگر ان احادیث کا ایک پس منظر ہے اور اسے اس پس منظر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اگر ان کا ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو ان کے استدلال، ہندستان کے موجودہ حالات پر منطبق نہیں ہوتے۔بالخصوص ہجرت رسول کو ہرگز اپنے حوالے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا آغاز ایسے وقت ہوا ،جب دنیا میں ’داعی‘ کے علاوہ ایک بھی راہِ حق پر نہیں تھا۔ دعوت پر چند حضرات نے لبیک کہا۔ اگرچہ عرصہ تک یہ موقع نہ تھا کہ دوسروں کے سامنے علانیہ دعوت پیش کی جائے ،یا خود اپنے مسلمان ہونے کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے، رفتہ رفتہ ۱۳؍ سال کے عرصہ میں یہ موقع آیا کہ دعوت کو قبول کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوگئی۔ جماعت کے افراد پوری طرح ترتیب پاچکے تھے ،مگر وہ منتشر تھے۔ ان کا کوئی نظم نہیں قائم ہوسکتا تھا۔ تب ایک آزاد مرکز کی ضرورت تھی، جہاں اس منتشر جماعت کی شیرازہ بندی ہوسکے اور اسلام کے اجتماعی احکام پر بھی عمل ہوسکے۔ چنانچہ مدینہ منورہ ’دارالہجرت‘ قرار پایا۔ مسلمان یہاں پہنچے۔ تب ان کو اجتماعی احکام کی تلقین کی گئی۔ مثلاً اذان، جماعت، جمعہ، عیدین وغیرہ۔ اسلامی شعائر جو نظام اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، مدینہ منورہ پہنچ کر مشروع ہوئے۔ مدینہ طیبہ کے علاوہ کسی جگہ نہ اذان ہوسکتی تھی، نہ جماعت، نہ جمعہ اور نہ عیدین کا امکان تھا۔اس دَور میں فرض کیا گیا کہ جو اسلام میں داخل ہو، وہ لامحالہ ہجرت بھی کرے، تاکہ ان فرائض کو بھی ادا کرسکے جن کا تعلق اگرچہ سیاست، معاشرت، یا اقتصادیات سے نہیں؛ بلکہ صرف عبادات سے ہے، لیکن ان کی ادائیگی کے لیے اجتماعی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ یہ آزاد مرکز ایک جنگی محاذ بھی بن گیا اور سب طرف سے مخالفین اسلام کی کوششیں ہونے لگیں کہ اس محاذ کو صفحہ ہستی سے نیست نابود کردیا جائے۔ اس صورت میں لامحالہ مذہبی، سیاسی اور اخلاقی فرض تھا کہ اس محاذ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ اور اس کا حامی جہاں بھی کوئی ہو ،سمٹ کر وہاں پہنچ جائے۔ یہی دَور تھا جب ہجرت فرض کی گئی اور ترک ہجرت کو گناہ عظیم قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
فرشتے جن لوگوں کی جان اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کررہے تھے (روح قبض کرنے کے بعد) فرشتے اُن سے پوچھیں گے: ’تم کس حال میں تھے‘ (یعنی دین کے لحاظ سے تمھارا کیا حال تھا) وہ جواب میں کہیں گے (ہم کیا کرسکتے تھے!) ہم تو دَبے ہوئے کمزور تھے۔ (نہ آزادانہ غور و فکر کرسکتے تھے اور نہ اپنی رائے اور اعتقاد پر عمل کرسکتے تھے) فرشتے کہیں گے : کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ ہجرت کرکے چلے جاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ بہت بُرا ٹھکانا ہے، مگر وہ مجبور و بے بس مرد عورتیں اور بچیّ جو کوئی چارہ نہیں رکھتے اور نہ (ہجرت کی) کوئی راہ پاتے ہیں، تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ (ان کی معذوریوں پر نظر فرماتے ہوئے) ان کو معاف فرمادیں گے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔‘‘(سورہ: النسا ء، آیت: ۹۹۔۹۷، پ:۵)
تقریبا سات سال تک ایسے حالات رہے لیکن رمضان ۸ھ میں جب مکہ معظمہ فتح ہوا اور مدینہ منورہ کا اسلامی محاذ سارے حجاز پرچھا گیا تو یہ دور ختم ہوگیا۔ اب ہجرت کی فرضیت جو عارضی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔چنانچہ خاتم الانبیاو المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا:لَاہِجرۃَ بعدَ الفتحِ، ولٰکن جہادٌ و نیۃٌ واذا اسْتُنفِرْتُمْ فَانْفِرُوا۔ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب فضل الجھاد والسیر) (فتح مکہ) کے بعد ہجرت نہیں رہی، اب جہاد اور نیت باقی ہے اور جب شرکت جہاد کے اعلان عام کے بعد تم سے مطالبہ کیا جائے، تو تم جہاد میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:لاہجرۃَ الیومَ کان المومنون یَفِرُّ احدُھُم بدینہ الی اللّٰہ ورسولِہ ﷺ مَخافۃَ ان یُفتَنَ فامَّا الیومَ فقد اظْہَرَ اللّٰہُ الاسلامَ والیومَ یعبُدُ ربَّہ حیثُ شاءَ۔(بخاری، کتاب المناقب، باب ھجرۃ النبی ﷺ و اصحابہ الٰی المدینۃ)
(آج ہجرت کا حکم نہیں رہا (ایک دَور ایسا گزرا ہے) کہ مسلمان اپنے دین کو لے کر اللہ اور رسولؐ کی طرف بھاگتے تھے، اس خوف سے کہ اگر وہ وطن میں رہیں، تو کہیں آزمائش میں نہ پڑجائیں (یعنی دُشمنانِ دین کا کوئی منصوبہ کامیاب ہوجائے اور یہ معاذ اللہ ترک دین پر مجبور ہوجائیں) لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو پھیلادیا ہے اورآج مومن جہاں چاہے، اپنے رب کی عبادت کرسکتا ہے۔پہلے ہجرت پر بیعت لی جاتی تھی، لیکن اب حضرت مجاشع بن مسعودؓ حاضر خدمت ہوتے ہیں اور ہجرت پر بیعت کرنا چاہتے ہیں، تو ارشاد ہوتا ہے:لاہجرۃَ بعد فتحِ مکۃَ ولکن اُبایِعُہ علی الاسلامِ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب لاھجرۃ بعد الفتح)(فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں رہی ،البتہ اسلام پر میں اُن سے بیعت لوں گا۔)
اس کے بعد جنگ کے سلسلہ میں بھی ہدایت یہ ہوئی:
(جب تمھارا مشرک حریفوں سے مقابلہ ہو،تو ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دو۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اگر وہ قبول کرلیں، تو تم بھی منظور کرلو۔ اور جنگ کرنے سے باز رہو۔ ان کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ قبول کرلیں، تو تم بھی منظور کرلو۔ اور جنگ کرنے سے باز رہو۔پھریہ کہ وہ اپنے ملک کو (دارالحرب کو) چھوڑ کر دارالمہاجرین میں آجائیں۔ اور ان کو آگاہ کردو کہ اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو ان کو وہی رعایتیں ملیں گی، جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی، جو مہاجرین پر ہیں۔ اور اگر وہ اپنے ملک سے منتقل ہونے پر آمادہ نہ ہوں، تو ان کو بتادو کہ وہ اعراب مسلمانوں کی طرح سے ہوں گے، (جو جہاد وغیرہ میں شریک نہیں ہوتے ؛بلکہ اپنے دیہات میں رہ کر دیہاتی زندگی گزارتے ہیں۔ جو احکام ان اعراب پر جاری ہوتے ہیں، وہ ان پر بھی جاری ہوں گے۔) اور غنیمت اور سرکاری جاگیروں کی آمدنی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا؛ البتہ اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، تو غنیمت میں وہ حصہ دار ہوں گے۔۱ (ترمذی شریف، ص۱۹۵، ج۱۔ ابو داود، کتاب الجھاد، باب فی دعاء المشرکین)

یہ حدیث واضح کررہی ہے کہ:(۱)دیہاتی مسلمانوں پر لازم نہیں رہتا تھا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچیں اور اسلامی فوج میں شامل ہوں۔(۲)اسی طرح دارالحرب کے باشندے اگر مسلمان ہوں تو ان پر لازم نہیں ہے کہ وہ ہجرت کرکے دارالمہاجرین میں پہنچیں۔

اب اس کے باوجود یہ ایک عام آدمی یہ سوال کرسکتاہے کہ ہندستان کی ایسی بہت ساری ریاستیں ہیں جہاں ایک طبقہ اس کے درپے ہے کہ ہندو تہذیب کو حاوی کرے، عوام کے رجحانات یہ ہیں کہ ذبیحۂ گاؤ ایک فتنہ بن گیا ہے، جس کے نتیجہ میں فریضۂ قربانی کی ادائیگی میں دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، اسی بعض گاؤں میں جیسا کہ ہریانہ وغیرہ کے حالات ہیں نماز پنچگانہ پر پابندی لگادی گئی ہے ، ایسے حالات میں مسلمان کیا کرے ؟ اس کا راست جواب یہ ہے کہ اگر کچھ افراد یا کوئی جماعت ملک کے دستورِ اساسی کے برخلاف کوئی نعرہ لگائے یا حکم جاری کرے تو اعتبار دستورِ اساسی کا ہوگا۔ اس جماعت کے نعرے قابلِ التفات نہ ہوں گے، کیوں کہ اربابِ اقتدار اور اصحابِ حل و عقد کے قول و فعل کا اعتبار ہوتا ہے۔ اَنَّ المُعتَبرَ فی حکمِ الدارِ ہُوَ السلطانُ فی ظُہُورِ الحُکْمِ۔ (ص۱۰، ج۴۔ شرح السیر
الکبیر، ابواب سھمان الخیل والرجالۃ فی الغنائم، باب الموادعۃ) اس لیے ایسی طاقتوں سے گھبرا کریا بزدل ہو کر ہم اپنے وطن کو نہیں چھوڑ سکتے بلکہ صبرو استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جائے ۔ الحمد للہ ہمارے اکابر رحمہ اللہ نے ہر دور ایسے حالات کا مقابلہ کیا ہے ، بلکہ یہ دین اسلام کی فطرت ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے وہ اتناہی پھلتااور پھولتاہے۔صبر واستقلال کی وجہ سے ہی ہم نے اس ملک کو چنا جو دعوتی ناحیہ سے ہماری ذمہ داری بھی تھی اور جتنی اسلام کو ترقی دور ظلمت میں ہوئی،ہندستان میں دیوبند، سہارنپور، دہلی، فرنگی محل، لکھنؤ، رامپور، ٹونک، گنگوہ، تھانہ بھون وغیرہ سے نقلی و عقلی علوم اور طریقت و معرفت کے چشمے جاری کیے۔دارالعلوم دیوبند، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ ملیہ، جامعہ قاسمیہ مراد آباد، شمس الہدیٰ پٹنہ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالمصنّفین اعظم گڑھ، ندوۃ المصنّفین دہلی، خدا بخش لائبریری پٹنہ اور بہت سے چھوٹے بڑے تعلیمی اور تبلیغی ادارے، کتب خانے اور لائبریریاں ان علاقوں میں قائم ہوئیں، جہاں مسلمان آٹھ دس فی صدی سے زائد نہ تھے۔ اس لیے صبر و استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جائے اور اپنے ظاہری و باطنی اعمال و اطوار سے خود کو بطور داعی پیش کیا جائے ، یہی دین اسلام میں مستحسن اور مطلوب ہے ۔

Leave a comment