اسمارٹ فون: اس دور کا سب سے بڑا فتنہ

از قلم: – مولوی شہاب الدین فاضل(منتظم ادارہ مرکزالعلوم ناندیڑ)

حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے،یورپ کے کسی ملک کی ویڈیو ہے، اس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو دکھلایا گیاہے، ان کے ہاتھوں میں تختیاں ہیں جن پر کچھ اس طرح کے نعرے لکھے ہوئے ہیں ’’ہمیں وقت دو‘‘ ’’ہمیں آپ کا پیار چاہئے‘‘ ’’موبائل فون سے ہم نفرت کرتے ہیں‘‘ بچوں کے اس مظاہرے کی قیادت ایک سات سالہ بچہ کررہا تھا، ان بچوں کو اپنے والدین سے شکایت ہے کہ وہ ان پرتوجہ دینے کے بجائے اپنا تمام وقت موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں، یہ گھر گھر کی کہانی ہے، موبائل کے حد سے زیادہ استعمال نے ہمیں دور دراز کے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تو مربوط کیا ہے لیکن قریبی رشتوں سے دور بھی کردیاہے، کتنے ہی لوگ ہیں جو نا دیدہ لوگوں کے ساتھ دوستی اورتعلق میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتاکہ قریب ترین رشتوں کی ڈور ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے، یہ تو وہ بچے تھے جنھیں احساس ہوا کہ اس عمر میں وہ والدین کی توجہات کے زیادہ مستحق ہیں، ورنہ بہت سے بچے تو اس کمی کو اسمارٹ فون کے استعمال سے پوری کررہے ہیں، والدین خود بھی موبائل فون پر دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنے نو عمر بلکہ شیر خوار بچوں تک کو موبائل فون پکڑادیتے ہیں، انھیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ اس طرح بچوں کی نشوونما متأثر ہوسکتی ہے، ان کی آنکھیں خراب ہوسکتی ہیں، ان کی تعلیم پر بھی اس کا اثر پڑسکتا ہے سب سے زیادہ یہ کہ وہ ان سے دوربھی ہوسکتے ہیں، مگر موبائل فون کے نشے میں چور والدین کو ان سب چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں ۔
ہمارے دور کی سائنسی ایجادات میں موبائل فون ایک اہم ایجاد ہے، اس وقت دنیا میں اگر کسی ایجاد سے زیادہ فائدہ اٹھایا جارہا ہے تو وہ موبائل فون ہے، دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سے نصف یقینی طورپر اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہے، خود ہمارے ملک میں چالیس پچاس کڑوڑ افراد موبائل سے جڑے ہوئے ہیں، اس ایجاد نے دوریاں ختم کردی ہیں، فاصلے مٹادئے ہیں، اور لوگوں کو ایک دوسرے سے انتہائی قریب کردیا ہے، آدمی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اس فون کے ذریعے وہ ہر وقت اپنوں سے باخبر رہتا ہے اور انھیں بھی با خبر رکھتا ہے، دنیا بھرکی معلومات انٹرنیٹ کے ذریعہ اس کے موبائل فون پر سیلاب کی طرح آتی رہتی ہیں، کہیں بھی کوئی اہم یا غیر اہم واقعہ ہو وہاٹس آپ، فیس بک، ٹیوٹر اور دوسرے پروگراموں کے ذریعے اس تک پہنچ جاتا ہے، کسی چیز کے متعلق معلومات درکار ہوں تو گوگل کافی ہے، اس کے خزانے میں ہر طرح کی معلومات موجود ہیں، بس آپ کی انگلیوں کو حرکت کرنی ہے، اگلے ہی لمحے آپ کے موبائل فون کی اسکرین پر وہ تمام معلومات آپ کی مطلوبہ زبان میں لکھی ہوئی سامنے آجائیں گی، ساری دنیا سے باخبر رہنے کا اس سے بہتر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، پہلے ریڈیو کھولنا پڑتا تھا، ٹی وی کی نشریات دیکھنی پڑتی تھیں، اخبارات پڑھنے پڑتے تھے، کتابوں کے صفحات الٹ پلٹ کرنے پڑتے تھے، اب یہ ساری چیزیں آپ کے اسمارٹ فون میں ہیں، نہ کہیں جانے کی ضرورت، نہ کسی جگہ جم کر بیٹھنے کی ضرورت، نہ کتابیں اٹھانے اور رکھنے کی ضرورت، نہ ٹی وی چینلوں کو گردش دینے کی ضرورت، پوری دنیا آپ کی مٹھی میں ہے، بس مٹھی کھولنے کی ضرورت ہے، یہ تو موبائل فون کا مثبت پہلو ہے، لیکن یہ ایجاد اپنے ساتھ کتنی خرابیاں لے کر آئی ہے اس کا احساس اب ذی شعور لوگوں کو ہونے لگا ہے، ممتاز عالم دین مولانا تقی عثمانی صاحب تو اسمارٹ فون کو دور حاضر کا سب سے بڑا فتنہ کہتے ہیں، اگر ایک سادہ سا موبائل ہو اور مقصد صرف اتنا ہو کہ اس کے ذریعے کسی کو فون کرلیا جائے یا کسی کا فون سُن لیا جائے تو اس سے بڑھ کر مفید چیز کوئی دوسری نہیں ہوسکتی، خرابی اس وقت پیداہوتی ہے جب یہ سادہ سا فون اسمارٹ فون میں یا ملٹی میڈیا فون میں تبدیل ہوجاتاہے، پھر اگر اس کا استعمال اس حد تک ہو جس حد تک کسی کو اس کی ضرورت ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، مثال کے طورپر ایک تاجر اسمارٹ فون صرف اس لیے رکھتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دے سکے یادور رہ کر اپنی تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے اور انھیں دور رہ کربھی کنٹرول کرتا رہے تو یقینا یہ بہترین استعمال ہے، ایک صحافی اسمارٹ فون کے ذریعے دنیا بھر کی خبروں سے باخبر رہتاہے، واقعات عالم پر مشہور ومعروف قلم کاروں کے تجزیوں اور سیاست دانوں کے تبصروں کی روشنی میں وہ اپنی رائے قلم بند کرتا ہے اور اپنی یہ رائے نیٹ پر ڈال دیتاہے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کا نقطۂ نظر بھی آجائے تو کہا جائے گا کہ یہ صحافی اپنے اسمارٹ فون کو صحیح طورپر استعمال کررہا ہے، اسی طرح کوئی طالب علم اپنے مضمون کی تیاری میں نیٹ پر دستیاب معلومات سے مدد لے رہا ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہے، بات وہاں خراب ہوتی ہے جہاں اس کا استعمال غلط طورپر کیا جاتاہے، مولانا تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ موجودہ دور میں اسمارٹ فون فحاشی پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، مولانا کا یہ تجزیہ صد فی صد درست ہے، آج ہماری نئی نسل بہ طور خاص اسمارٹ فون کو اس لیے گلے لگائے پھرتی ہے کہ وہ اس کی خلوتوں کا ساتھی اور تنہائیوں کا رفیق ہے، وہ اس میں کیا دیکھتا ہے کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے، کچھ پہلے تک تفریح کا بڑا ذریعہ سنیما بینی تھا، لیکن بہت سے لوگ خاص طور داڑھی ٹوپی والے لوگ سنیما ہاؤس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اس لیے ڈرتے تھے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو وہ طعنہ دے گا اور ہمارے احترام وعزت میں فرق آجائے گا، اب صورت حال بدل چکی ہے، دنیا بھر کی فلمیں آپ کی جیب میں ہیں، اور آپ کے اشارے کی منتظر ہیں، آپ داڑھی ٹوپی تو کیا جبہ ودستار میں بھی ان فلموں سے استفادہ کرسکتے ہیں اور معاشرے میں اپنی بزرگی کا بھرم برقرار رکھ سکتے ہیں۔
فلمیں خاص طورپر فحش فلمیں تو اب بھی پردے میں دیکھی جاتی ہیں، لیکن دوستوں کے ساتھ سارا سارا دن اور پوری پوری رات چیٹنگ کرنے میں کسی آڑ کی ضرورت نہیں ہے، جسے دیکھو وہ خشوع خضوع کے ساتھ اس کام میں لگا رہتا ہے، وقت کی اضاعت، صحت کی بربادی، پیسے کا ضیاع، قریبی رشتوں کے ساتھ دوری، سب اسی اسمارٹ فون کی بدولت ہیں، ایک عامگھر کا منظر نامہ بھی کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ بیوی اپنے موبائل پر مصروف، شوہر اپنے موبائل کی اسکرین پر نظر جمائے ہوئے، بچے بھی والدین کے نقش قدم پر، نیند نے مجبور کیا سوگئے، ورنہ صبح تک پلک نہیں جھپکی جاتی، سونے کے بعد اٹھتے ہی سب سے پہلے فون پر اپنا اسٹیٹس چیک کیا جاتاہے، اس کے بعد دوسری مصروفیات شروع ہوتی ہیں.

Leave a comment