مرے ہوئے انسانوں کا گوشت کھانے والے سادھوں سے کراہیت بھی آتی ہے اور خوف بھی

سوامی ناتھن نتارنجنبی بی سی ورلڈ سرویس
بی بی سی ورلڈ سرویس
اگھوری ایک گروپ کی شکل میں اشنان کے لیے جا رہے ہیں

تصویر کے کاپی رائٹEPA
EPA
Image captionاگھوری کمبھ میلے ہی میں نظر آتے ہیں
اگھوری کمبھ میلے ہی میں نظر آتے ہیں
انڈیا کی ریاست اتر پردیس کے شہر آلہ آباد میں، جس کا حال ہی میں نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے، جب بھی کمبھ کا میلا منعقد ہوتا ہے ہندو سادھوں کا ایک گروہ ‘اگھوری’ خبروں کی زینت ضرور بناتا ہے۔
اس گروہ میں شامل ہندو سادھو مذہبی روایت کے طور پر شمشان گھاٹوں میں جنسی فعل کرتے ہیں، مرے ہوئے انسانوں کے جسموں کا گوشت کھاتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود عام لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی عقیدت مند بھی ہے۔
سنسکرت زبان میں اگھوری کا مطلب ہوتا ہے کوئی ایسی شہ جس سے خوف محسوس نہ ہوتا ہو۔ لیکن اگھوری سادھوں سے ان کی عجیب و غریب مذہبی رسومات اور حرکتوں کی بنا پرعام لوگ کراہیت بھی محسوس کرتے ہیں اور خوف بھی۔ ان کے عقیدت مندوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن ان کے بارے میں لوگوں کو تجسس بھی خوب رہتا ہے۔

روحانی سفر

لندن میں قائم افریقہ اور مشرق کے علوم کے ادارے سواس میں سنسکرت اور قدیم انڈیا سڈیز کے استاد ڈاکٹر جیمز میلنسن کے مطابق اگھوری سادھوں کی رسومات اس بنیادی عقیدے پر قائم ہیں کہ روحانی طور پر خدا کے قریب تر ہونے کے لیے دنیاوی بندشوں سے آزاد ہونا ضروری ہے۔
لندن کے اعلی ترین تعلیمی ادارے ایٹن اور اکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر میلنسن بھی ایک ’گرو‘ ہیں جن کا تعلق ایک ایسے مذہبی گروہ سے ہے جو انتہائی سادہ زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا گروہ مرکزی دھارے یا اکثریتی عقائد سے قریب تر ہے اور اگھوری سادھوں کے رسم اور رواج کی نفی کرتا ہے۔
اگھوری مراقبے میں

تصویر کے کاپی رائٹEMPICS
EMPICS
Image captionعام لوگوں کے لیے اگھوری سادھوں کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے
عام لوگوں کے لیے اگھوری سادھوں کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے
لیکن ان کا اگھوری سادھوں سے کافی واسطہ رہا ہے۔
اگھوری سادھوں کا عقیدہ ہے کہ جن چیزوں کی ممانعت ہے ان سے تجاوز کیا جائے اور وہ اچھے اور برے کا جو عام تصور ہے اس کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔
روحانیت حاصل کرنے کا یہ راستے بہت سی دیوانگی کی حد تک خطرناک رسومات سے ہو کر گزرتا ہے جن میں مردہ انسانوں کا گوشت اور اپنا فضلہ کھانے جیسی کراہیت انگیز رسومات بھی شامل ہیں۔
ان سادھوں کے خیال میں ایسی حرکت جن سے عام لوگ اجتناب کرتے ہیں ان کے کرنے سے وہ آگہی اور ادارک کا ایک اونچا درجہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ماخذ

یہ روایات جو آج رائج ہیں وہ زیادہ قدیم نہیں ہیں۔ اگھوری کا لفظ اٹھارہویں صدی میں عام استعمال میں آنا شروع ہوا۔

لیکن انھوں نے بہت سی ایسی پرانی روایات کو اپنا لیا جو کپالی کاس یا کھوپڑی برداروں میں رائج تھیں اور جن کا ذکر ساتویں صدی کی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔ کپالی کاس میں انسانوں کو بلی چڑھنا یا قربان کرنے کی رسم بھی رائج تھی لیکن یہ گروہ اب وجود نہیں رکھتا۔
اگھوری

تصویر کے کاپی رائٹEPA
EPA
Image captionانسانی کھوپڑیاں یہ استعمال کرتے ہیں
انسانی کھوپڑیاں یہ استعمال کرتے ہیں
ہندووں کے بہت سے دیگر سلسلوں کی طرح اگھوری سادھو بہت منظم نہیں ہیں۔ زیادہ تر یہ لوگ بالکل تناہ رہتے ہیں اور کسی عام شخص پر اعتماد نہیں کرتے۔ وہ اپنے اہلخانہ یا خاندان سے بھی کوئی تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے۔
اگھوری اکثر اوقات نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈاکٹرمیلسن کے مطابق ذہنی قابلیت کے لحاظ سے ان میں کافی تنوع پایا جاتا ہے اور ان میں اکثر کافی ذہین لوگ ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایک اگھوری نیپال کے راجا کا مشیر بھی رہ چکا ہے۔
کس سے نفرت نہیں
منوج ٹھاکر جو اگھوری سادھوں پر ایک ناول کے منصف بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے بارے میں بہت سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
یوگا کرتے ہوئے ایک سادھو

تصویر کے کاپی رائٹEPA
EPA
Image captionاگھوری سادھوں کے لیے کمپڑے پہننا ضروری نہیں
اگھوری سادھوں کے لیے کمپڑے پہننا ضروری نہیں
ان کا کہنا ہے کہ اگھوری بہت ہی سادہ لوگ ہوتے ہیں اور جو کسی چیز کے طلب گار نہیں ہوتے۔
وہ ہر شہ میں ایک قادر متعلق کا عکس دیکھتے ہیں۔ وہ کسی سے نہ نفرت کرتے ہیں نہ کسی چیز کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے خیال میں ایک جانور اور انسان کے گوشت میں کوئی فرق نہیں اور انھیں جو مل جائے وہ کھا لیتے ہیں۔
جانوروں کی قربانی ان کے مذہبی عقائد میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔
وہ چرس پیتے ہیں اور نشے کی حالت میں بھی اپنے ہوش و حواس برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میلسن اور ٹھاکر دونوں کے مطابق اگھوری عقیدے کے بہت کم پیروکار رہ گئے ہیں جو واقعی ہی ان کی تمام رسومات کی پاسداری کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ کمبھ میلے میں جمع ہوتے ہیں وہ خود ساختہ اگھوری ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق بہت سے سیاحوں اور عقدیت مندوں کو لبھانے اور پیسہ کمانے کے لیے اگھوری روپ دھار لیتے ہیں۔
اگھوری کھوپڑیوں کے ساتھ

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
GETTY IMAGES
Image captionاگھوری سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں
اگھوری سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں
عقدت مند انھیں پیسے اور کھانے پینے کی اشیا دیتے ہیں لیکن ٹھاکر کا کہنا ہے اصلی اگھوری پیسے کے بارے میں بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں۔
وہ ہر شخص کے لیے دعا کرتے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کہ کوئی اولاد کے لیے دعا کروانا چاہتا تو کسی کو نئے گھر کے لیے دعا چاہیے ہوتی ہے۔
اگھوری شیوا کے پجاری ہوتے ہیں جو ہندو مت میں تباہی کا دیوتا ہے اور جن کی خصوصیت شکتی یا طاقت ہے۔ شمالی انڈیا میں اگھوری صرف مرد بن سکتے ہیں۔ لیکن بنگال میں اگھوری خواتین بھی ہوتی ہیں جو شمشان گھاٹوں میں رہتی ہیں۔ لیکن اگھوری خواتین کپڑے پہنتی ہیں۔
ہر شخص موت سے ڈرتا ہے اور شمشان گھاٹ موت کا نشان ہوتے ہیں جو اگھوری کا مسکن ہوتا ہے۔ یہ لوگ معاشرے میں رائج عام آدمی کی اقدار اور اخلاقیات سے بغاوت کرتے ہیں۔
سماجی خدمت
اگھوری کا جلوس

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
GETTY IMAGES
Image captionہندووں کی اکثریت اگھوری رسمومات کو نہیں مانتی
ہندووں کی اکثریت اگھوری رسمومات کو نہیں مانتی
گزشتہ چند دہائیوں میں اگھوری سادھوں نے بہت سی روایات مرکزی دھارے کی بھی اپنائی ہیں اور انھوں نے جذام کے مریضوں کا علاج کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکہ کے انتھروپولوجسٹ ران براٹ کا کہنا ہے کہ اگھوری ان لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں جنھیں اچھوت سمجھا جاتا ہے۔
ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ شمشان گھاٹ ایک طرح سے کوڑھ کے علاج کی جگہ بن گئے ہیں اگھوری موت سے خوف زدہ نہیں ہوتے اور کوڑھ کا علاج کرتے ہیں۔
Cremation ground in Varanasi

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
GETTY IMAGES
Image captionاگھوری اکثر شمشان گھاٹوں میں رہتے ہیں
اگھوری اکثر شمشان گھاٹوں میں رہتے ہیں
ونارسی شہر میں جذام کے مریضوں کو جنہیں ان کے خاندان والے چھوڑ جاتے ہیں انھیں ان ہسپتال میں پناہ ملتی ہے جسے اگھوری چلاتے ہیں۔
چند اگھوری موبائل فون اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے جب باہر نکلتے ہیں تو اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کے لیے کچھ نہ کچھ کپڑا ڈال لیتے ہیں۔

ہم جنسیت منع

ایک ارب سے زیادہ لوگ ہندو ہیں لیکن ان کے عقائد میں کوئی یگانگت نہیں ہے۔ کوئی ایک پیغمبر اور صحیفہ نہیں ہے جس کی سب پیروی کریں۔
اگھوری کی تعداد کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ماہرین کے مطابق ان کی تعداد چند ہزار ہی ہو گی۔
بہت سے ہندووں کے لیے بھی جو سادھوں کے رسم و رواج سے واقف ہیں ان کے لیے بھی کسی اگھوری سے ملاقات خاصی پریشان کن اور کراہیت انگیز ہوتی ہے۔
اگھوری

تصویر کے کاپی رائٹEPA
EPA
Image captionاگھوری اپنے جسم پر جلائے گئی لاشوں کی راکھ ملتے ہیں
اگھوری اپنے جسم پر جلائے گئی لاشوں کی راکھ ملتے ہیں
کچھ اگھوری اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ لاشوں کے ساتھ بھی جنسی فعل کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر میلسن کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں بھی جسم فروشوں کے ساتھ مباشرت کرنے کی ممانعت ہے اور وہ ہم جنسیت سے بھی منع کرتے ہیں۔
جب وہ مرتے ہیں تو دوسرے اگھوری ان کا گوشت نہیں کھاتے اور ان کا کریا کرم بھی عام لوگوں کی طرح ہی کیا جاتا ہے۔

شکریہ بی بی سی اردو

Leave a comment