”وہ جو بیجتے تھے دوائے دل ۔۔۔۔ وہ دکان اپنی بڑھاگئے “

آہ: داعی با کمال حضرت مولانا محمد غزالی ندوی بھٹکلی ؒ کا سانحہ وفات

از قلم (مفتی محمد رضوان صاحب فلاحی، ناندیڑی )

۳۲ رمضان المبارک ۹۳۴۱ ھ ۹ جون ۸۱۰۲ ءکی شب بیداری ، اور مبارک ساعتوں سے لطف اندوز ہو کر قیمتی لمحات وساعات میں اپنے رب حقیقی کی طرف کوچ کرنا ، یہ حضرت مولانا محمد غزالی ندوی بھٹکلی رحمة اللہ رحمة واسعة کی بارگا ہ ِ رب العزت میں مقبولیت و محبوبیت کی دلیل ہے ، حضرت مولانا مرحوم کی ولادت ۴۴۹۱ ءکو ریاست ِ کرناٹک کے علمی و دینی و تاریخی شہر ” بھٹکل “ میں ہوئی ، مولانا ؒ کے والد ماجد مولانا ابو بکر خطیبی بھٹکلی ؒ تھے ، جن کے آغوش ِ تربیت میں آپ پروان چڑھے ، آ پ نے انجمن ہائی اسکول بھٹکل میں دسویں جماعت تک بنیادی تعلیم حاصل کی ، پھر آپ نے علاقہ¿ کرناٹک کی مایہ¿ ناز دینی و علمی درسگاہ ” جامعہ اسلامیہ بھٹکل“ میں اپنے تعلیمی سفر کو بڑی ژرف نگاہی اور دیدہ وری کے ساتھ طے کیا ، نیز مولانا مرحوم کو جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے اولین استاذ اور مہتمم حضرت مولانا عبد الحمید ندوی بارہ بنکوی ؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ، اس کے بعد ندوة العلماءلکھنو میں داخل ہوئے ، اور خوب جانفشانی اور عرق ریزی سے تعلیم کے حصول کے فرائض انجام دیئے ، ۷۶۹۱ء میں ندوة العلماءسے فراغت حاصل کی ، یہ آپ کی کمال مقبولیت کی دلیل ہے کہ آپ ؒ اپنی مادر علمی ہی میں تدریسی خدمات کے لئے منتخب کئے گئے ، اور تدریسی میدان میں بھی آپ نے اپنے علم وکمال کے وہ جوہر دکھلائے کہ آ پ کے فیض ِ باطنی سے بڑ ے بڑے علم و فضل کے بلند میناروں نے جنم لیا ، اور آپ کے فیض ِ روحانی سے دنیائِ عالم مستفیض ہور رہی ہے ، بعدہ آ پ نے کچھ گوشہ ¿ حیات تجارت و معیشت میں بھی صرف کیا ؛ لیکن ایام ِ طفولیت ہی سے علم و عمل کے سایہ میں پرورش پائی تھی ، اس لئے طبعی رغبت اور فطری تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے آپ” مرکز نظام الدین دہلی “ سے منسلک ہوگئے ، بقیہ زندگی اسی مبارک خدمت کے لئے وقف کردی تھی ، دارالعلوم ندوة العلماءکے فیوض و برکات ہی کے طفیل آپ عربی اور بالخصوص انگریزی زبان کے لکھنے پڑھنے اور بولنے پر کافی عبور رکھتے تھے ، اور آپ نے دعوت و تبلیغ کے منہج اور طریقہ¿ کار میں ان زبانوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا ، مولانا مرحوم کا مرکز نظام الدین کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کے ایماءاور مشورہ سے تھا ؛ کیونکہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ سے ان کا والہانہ تعلق تھا ، مولانا مرحوم حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒ کے سفر و حضر کے خصوصی رفیق تھے ، حضرت جی ؒ نے مولانا مرحوم سے اپنی نجی خدمات سے لیکر اور دیگر بہت سے امور آپ ہی کے سپرد کردئیے تھے، آپ حضرت جی ؒ کے طویل مدت تک خادم خاص رہے ، حضرت جی ؒ کی وفات کے بعد بھی آپ مرکز نظام الدین دہلی ہی میں مقیم رہے ، اس دوران آپ اپنے دامن کو اختلاف وانتشار سے بچاکر نکلنے میں بہت کامیاب رہے ، مولانا مرحوم جب بھی مرکز نظام الدین کے مشورہ میں شریک ہوا کرتے تو حضرت جی ؒ ان کی رای کو تبلیغی جماعت کے عالمی امور کے لئے بہت پسند فرماتے تھے اور بہت اہمیت دیتے تھے ،
مولانا غزالی ؒ کی ایک خوبی ان کی بے لوثی ، کم گوئی ، خوش خلقی تھی ، صالحیت تعلق مع اللہ ، مکروہات سے منافرت ، تواضع وانکساری ، رفتار و گفتار میں سنجید گی ومتانت ان کی حیات طیبہ کی ایک سنہری کڑی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنی عظیم خوبیوں کی مالک شخصیت تھی ، کہ ان کے ان اوصاف ِ حمیدہ کی خوشبو لا کھوں لاکھ دلوں کو مسحور کر تی چلی گئی ، دنیا سے بے نیازی ، مال ودولت کی طرف عدم التفات تو ان سے سیکھنے کی چیز تھی ، ان کی خوبیاں بے مثال ، ان کی نیکیا ں بے شمار ، کوئی کہاں تک ان کا تذکرہ کریں ، اسی وجہ سے ہم ” کلیم عاجز “ کا یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں ۔
کوئی کسی کا کیا لبھائے دل ۔۔۔۔۔ کوئی کسی سے کیا لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ۔۔۔۔۔ وہ دکان اپنی بڑھائے گئے
اس موقع پر ہم صرف یہ دعاءکر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو ان کا بدل اور نعم البدل عطاءفرمائیں ، اس لحاظ سے مولانا مرحوم ہم تمام ہی لوگوں کے نہایت مخلص سر پرست تھے ، آج ان کے انتقال کے موقع پر ہمیں اپنی محرومی کا شدید احساس ستارہاہے ، ہم مولانا مرحوم کے لئے دست بدعاءہے کہ اللہ تعالی ان کی خوب خوب مغفرت فرما کر اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائیں ، اور اللہ رب العزت ان کے پسماندگان اور لواحقین کو صبر جمیل عطاءفرمائیں ، آمین یا رب العالمین
Leave a comment