جماعت تبلیغ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کے ہاتھوں میں قلم ہے

عدو شد سبب خیر گر خدا خواہد

محمد ظفر جامعہ ملیہ اسلامیہ

یہ فارسی کا مصرعہ ابوالکلام آزاد کی کتاب غبار خاطر میں پڑھا تھا ، جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ چاہ لے تو دشمن خیر کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اور یقینا یہ سچ ہے ، جسکی گواہی تاریخ بھی دینے کے لیے تیار ہے ، موسی علیہ السلام کا واقعہ کس نے نہیں سنا ہے ، ان کو قتل کرنے کے لیے فرعون نے ہزاروں معصوموں کے خون سے زمین کو سرخ کردیا ، لیکن اللہ نے فرعون ہی کے گھر میں موسی کی پرورش کرائی ۔ تاتاریوں کی اسلام دشمنی اور اہل اسلام پر ڈھاۓ ہوۓ مظالم سے کون ناواقف ہے ؟ تاریخ بتاتی ہے کہ دریائے فرات کا پانی مسلمانوں کے خون سے کہیں سرخ اور کہیں ان کے کتب خانوں کے جل نے کی وجہ سے سیاہ ہو گیا تھا ،بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی ، اور دنیا میں یہ شہرہ ہو گیا تھاکہ اب اسلام کا خاتمہ ہو جاۓ گا ، لیکن وہی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اسلام دوبارہ تاتاریوں کے گھر سے نمودار ہوا۔

اسکے علاوہ ہزاروں ایسے چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر اللہ چاہ لے تو دشمن کی عداوتیں اور ظلم وزیادتی خیر کا باعث بن جاتی ہیں۔

اور آج تاریخ پھر ایک بار اسی ضمن میں ایک نئے واقعہ کا گواہ بننے کے لیے اپنے ہاتھوں میں قلم لیے منتظر ہے ۔ اور وہ واقعہ دعوت و تبلیغ کی ایک فعال جماعت ، جماعتِ تبلیغ سے متعلق ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ ابھی تو اس پر الیکٹرانک میڈیا ، سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا کے پۓ در پۓ وار ہورہے ہیں ، خصوصاً اس ملک کا غیر مسلم طبقہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس پر اپنی پوری بھڑاس نکالنے میں مصروف عمل ہے ، اور جھوٹی سچی ہر طرح کی خبریں اس پر تھونپی جارہی ہیں، حقائق سے منہ موڑ کر اس پر ظلم و زیادتی کرنے کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں ، یہی نہیں بلکہ وہ حکومتِ وقت کے سوتیلے سلوک کا بھی شکار ہے ، گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کورونا وائرس کے آباؤاجداد کے جدامجد اور بابائے وائرس یہی جماعت ہے ، اسی نے پوری دنیامیں اس وائرس کو پھیلانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ، جو اس جماعت سے کلی طور پر ناواقف تھے اور اس جماعت کے سلسلے میں ا ب ج بھی نہیں جانتے تھے وہ اب اس پر لب کشائی کی جسارت کر رہے ہیں ، لہذا فی الحال یہ کیسے ممکن ہے کہ تاریخ قلم و قرطاس لیکر کسی خوشگوار تبدیلی کا منتظر ہو !؟ تو میں یہ جواب دوں گا کہ جماعتِ تبلیغ پوری دنیا کی وہ واحد جماعت ہے جس سے پوری دنیا کی مسلم آبادی خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ، افریقہ کے سیاہ فام ہوں یا یورپ کے گورے ، بچے ہوں یا بوڑھے ، علماء کا طبقہ ہو یا عوام کا ، دینی علوم کے ماہرین ہوں یا عصری علوم کے ماہرین، الغرض پوری دنیا کی مسلم آبادی اس سے واقف ہے جس میں کسی کو کوئی کلام نہیں ۔۔ مگر صد افسوس کہ آج تک اس جماعت کا مرکز کہلانے والا ملک ہندوستان کے ستر فی صد آبادی رکھنے والا غیر مسلم طبقہ کلی طور پر اس سے ناواقف تھا بھی ، اور ہے بھی ۔ لیکن میں قربان جاؤں اس دور کی میڈیا پر اللہ انکی زبان و قلم کو اور دراز کرے ، اور خصوصا مخالفین کے غیر مسلم طبقہ کو بھی اللہ مزید لب کشائی کی جسارت دے کہ وہ سوشل میڈیا کے تمام اصناف کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر مسلمین میں اس جماعت کی تبلیغ کا سبب بن رہے ہیں ۔ لہذا میرا دل چاہتاہے کہ میڈیا کا یہ رحم و کرم بشکل ظلم و ستم دیرپا ہو ، چوبیس گھنٹے وہ اپنی لن ترانی سنا تے رہیں ، مخالفین بھی اپنی لب کشائی کے جوہر دکھاتے رہیں ، گلی ،بازار ، ندی اور نالے جہاں سے کسی کا گزر ہو وہی آواز سنائی دے ، اس ملک کے چپہ چپہ پہ وہ آواز پہنچ جائے ، دلتوں ، دبے کچلوں ، جھونپڑیوں ، کچے پکے مکانوں ، امیروں ، غریبوں ، ہندؤوں ، سکھوں ، بدھسٹوں اور عیسائیوں الغرض ہر شخص تک یہ بات پہنچ جائے۔ پھر تاریخ کے اس لمحے کو جماعت کے کارکنان غنیمت جانیں ، اٹھ کھڑے ہوں ، اور جہاں جہاں وہ آواز پہنچی تھی وہاں وہاں خود جائیں اور غریبوں ، کسانوں ، مزدوروں ، امیروں ، غریبوں ، دلتوں ، ہندؤوں اور ہر کچے پکے مکانوں پہ جائیں ، دروازوں کو کھٹکھٹائیں انہیں بلائیں ، پاس بٹھائیں اور بتائیں کہ ہم کون ہیں ، ہم کیا کرتے ہیں ، ہم زندگی کیسے گزارتے ہیں ، ہم انسان ہیں ،آپ بھی انسان ہیں،ہمارے دل میں آپ کے لیے کتنی محبتیں ہیں، پھر بتائیں کہ سب انسان برابر ہیں ۔ سب ایک جیسے ہیں اور سب کا مالک بھی ایک ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیے اگر ایسا ہوتا ہے تو تاریخ کی کتابوں میں ایک اور خوشگوار باب کا اضافہ ہوگا۔۔ شاید آپ کو میری یہ باتیں خیالی دنیا کی دیو مالائی کہانی لگ رہی ہو ، لیکن یہ حقیقت ہے ۔
شروع میں میں نے تاتاریوں کا ذکر کیا تھا ، کیا آپ جانتے ہیں کہ ہلاکو اور چنگیز خان کی قوم تاتار مسلمان کیسے ہوے تھے ؟ مختصراً یہ کہ ایک تاتاری شخص جو ولی عہد تھا ، اس نے ایک مسلمان سے اپنے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ بتاؤ یہ کتا زیادہ افضل ہے یا تم ؟؟؟ اس مسلمان نے جس کا نام تاریخ جلال الدین بتاتی ہے اور وہ داعی تھا لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا اور اسکی حقانیت سے واقف کراتاتھا، اس نے سوچا کہ اگر میں کہوں گا کہ یہ کتا مجھ سے بہتر ہے تو میری جان بچ جائے گی لیکن جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا پڑے گا ، پھر سوچا کہ اگر میں کہوں گا کہ میں بہتر ہوں تو میری گردن اسی وقت اڑادی جاۓگی ، لہذا اس نے جو جواب دیا اسے تاریخ نے سنہرے قلم سے سنہرے کاغذ پر سنہرے الفاظ میں لکھ کر قیامت تک کے لیے محفوظ کرلیا، وہ جواب کیا تھا ؟ وہ جواب تھا کہ : "اگر میرا خاتمہ ایمان پہ ہوتا ہے تو میں بہتر ہوں اور اگر ایمان پر خاتمہ نہیں ہوتا ہے تو یہ کتا مجھ سے زیادہ بہتر ہے” ، پھر اس تاتاری نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ایمان کیا چیزہے

؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟ …….قصہ مختصر کہ …..پھر ایک دن آیا کہ وہ تاتاری بادشاہ بنا ، اور شاہی محل میں اسلام کا اعلان کیا ، اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تاتاری مسلمان ہو گئے ۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو ڈنکا میڈیا بجارہی ہے اس میں خیر کے پہلو مضمر ہیں ، اسے بچانے دیجئے اور جب پورے ملک میں اس کا شہرہ ہو جائے تو دعوت کے علمبرداروں کو چاہیے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور تاریخ کو ایک اور موقع فراہم کرے کہ وہ اپنے صفحات میں ایک اور مثالی باب قائم کرلے۔۔۔۔