جانوروں کی پشت پر انسانی اعضاء اگانے کا کامیاب تجربہ

یہ 1990 کی دہائی کی بات ہے جب ایسی تصاویر منظرعام پر آئیں جن میں دکھایا گیا تھا کہ ایک چوہے کی پشت پر انسانی کان اگ رہا ہے اور وہ فوٹو شاپ کا کمال نہیں تھا بلکہ درحقیقت وہ کام گائے کی ایک نرم ہڈی کی مدد سے کیا گیا تھا اور انسانی ٹشوز کو استعمال نہیں کیا گیا۔اب لگ بھگ 20 برس سائنس اس مذاق کو ممکن بنانے کے لیے قریب پہنچ گئی ہے۔

جی ہاں جاپانی محققین نے ایک چوپے کی پشت پر بالغ فرد کے سائز کا ‘ زندہ’ کان انسانی سٹیم سیل کی مدد سے اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

ٹوکیو یونیورسٹی اور کیوٹو یونیورسٹی کے ماہرین نے یہ تجربہ کیا اور ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ برسوں کے دوران انسانوں پر اس کی آزمائش بھی شروع ہوجائے گی۔

انوہں نے کہا کہ اس طرح اگائے جانے والے کانوں کو جنگوں یا حادثات میں اس عضو سے محروم ہوجانے والوں کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، اس کے علاوہ ان لوگوں کی مدد بھی کی جاسکے گی جو پیدائشی طور پر کانوں سے محروم یا جن کے کان چھوٹے رہ جاتے ہیں۔

کان کو اگانے کے لیے جاپانی محققین نے پلیوریپوٹینٹ سٹیم سیلز کو کان کی ہڈی اگانے کے لیے استعمال کیا، جس کے بعد ان خلیات کو کان جیسی ساخت کی بائیولوجیکل ٹیوب میں رکھا گیا۔

اس کان کو پھر ایک زندہ چوہے کی کھال کے نیچے نصب کردیا گیا اور دو ماہ تک خلیات کو اسے اگانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔اس دورانیے کے دوران ٹیوبس تحلیل ہوگئیں جبکہ انسانی کان 2 انچ لمبا ہوگیا۔

اس سے قبل 2013 میں ایک امریکی ٹیم نے بھی اسی طرح کا کام کیا تھا مگر انسانی سٹیم سیلز کی بجائے انہوں نے گائے اور بھیڑوں کے ٹشوز کی مدد سے اسے اگایا تھا جس بعد میں ایک چوہے میں نصب کیا گیا۔صرف کان ہی نہیں سائنسدان گردوں اور تھائی مس کی تیاری پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

Leave a comment