لُغتِ نان و قلیہ معہ شرح(دوسرا ایڈیشن)

Moiz Hashmi

معز ہاشمی ٗاورنگ آباد(دکن)۔Mob: 9372696300

لُغت نان و قلیہ کا دوسرا ایڈیشن قارئین کی تسکینِ ذوق کے لیے شائع کیا جارہا ہے‘ چونکہ اس کا پہلا ایڈیشن کُل کا کُل حالات کی نذر ہوگیا، اس کے لیے اِدارہ معذرت خواہ ہے۔ دوسرا ایڈیشن لُغت معہ شرح ’’ن۔ ق‘‘ شائع کرنے کی نوبت قارئین کے بے حد اصرار اور چند گنے چنے بہی خواہوں کے مفید مشوروں کے دبائو میں آکر منظرِ عام پر لایا جارہا ہے۔ دیباچہ میں نان و قلیہ تیار کرنے کے ظروف کلاں (بڑے برتن) اور ظروفِ خورد (چھوٹے برتن)‘ ترکیبِ پکوان (الف) گھپ اندھیروں میں پکوان کا مطلب دن کا کھانا‘ (ب) سورج کی روشن کرنو ںمیں دیگیں چڑھانے کا مطلب رات کا کھانا‘ قانونِ مہمان نوازی‘ سلیقہ اور اطمینان سے کھانے والوں کو مفید مشورے اور مضمون کے اختتام پر ہاتھ دھونے کے راستے کی صحیح رہنمائی۔ یہ آخری مرحلہ آپ کے اخلاق کو اُجاگر کرتا ہے۔
مندرجہ بالا ابواب کی با تفصیل گرہ کشائی ہمارا نصب العین ہے۔
(۱) ظروفِ نان و قلیہ ۔ (الف) ظروفِ کلاں۔ دیگ۔ دیگ کا مطلب تانبے کی دھات سے تیار کیا گیا مانند کنواں ایک ایسا برتن جو صیقل (قلعی) ہونے کے ساتھ ساتھ اونٹ کے گرتے ہونٹوں کی منڈیر جو طوق کی طرح ہونے کے ساتھ اپنے پیندے کے مقابلے اور دبیز کہلائے جس کا دہانہ اس کے پیندے سے کچھ ہی کم ہو دیگ کہلاتا ہے جس میں گوشت (لحم)‘ تیل‘ دہی اور مصالحہ جات (پسی ہوئی شکل) میں اُنڈیل دیا جاتا ہے۔ (ب) ظروفِ خورد۔ کفگیر‘ ایک لمبا اور بڑے سپاٹ چمچے کی شکل کا ہوتا ہے جس میں جگہ جگہ سوراخ ہوتے ہیں۔ مسلسل دیگ میں اس کے ہلانے سے تمام اجزاء ایک جان ہوجاتے ‘ بعد ازاں باورچی ڈول بھر پانی اس میں ڈالتا ہے اور پھر دیگ کو طبق سے ڈھانپ دیتا ہے تاکہ اس کے بعد کوئی اور چیز اس میں ڈالنے کی گنجائش نہ رہے۔ آگ اپنا کام بڑی تندہی اور جانفشانی سے انجام دیتی‘ قلیہ کے اُبال اور جوش میں ایک سازِ آہنگ سا پیدا ہوتا ہے اس کے بعد طبّاخ ڈورے (لمبی لکڑی پر کڑھائی نما برتن) سے محلول کا جائزہ لیتا پھر اس میں گرم مسالے کے سفوف کا چھڑکائو کرتا اور اپنے فن کی تکمیل کا اعلان کردیتا۔ دوسری جانب نان بائی تکیہ نما بشکلِ مربع (رفیدہ) شہ پر خمیر سے گوندھے آٹے کے پیڑے کو مثلث نان کی شکل دیکر تپتے تندور میں جھک کر چسپاں کردیتا ہے‘ چند ہی لمحات میں وہ پوری طرح پھوگ جاتا ہے‘ اچھے سے سینکنے کا احساس کے ساتھ ہی وہ دو سیخوں (جوڑی) کی مدد سے پختہ نان کو تندور سے باہر نکال دیتا ہے۔ دونوں طبّاخوں کی دلچسپ حرکتوں سے نان و قلیہ کی کیمسٹری عمل میں آتی ہے۔ اب اسے دستر پر پیش کرنے کے لیے بادیوں (چھوٹے بگونے کو لوہے کی کڑی لگی ہوتی ) میں دیگ سے ڈورے کے سہارے نکالے ہوئے قلیہ کو دسترخوان کی زینت بنایا جاتا ہے پھر چمچوں کی مدد سے تام چینی کے کٹوروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس میں دیگ‘ کفگیر‘ تندور‘ ڈورا‘ رقیدہ‘ سیخیں‘ بادئیے اور کٹوروں کا ذکر ان کے طریقۂ استعمال کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے اگر ان میں کوئی شئے ہماری نظروں سے چھوٹ گئی ہو تو ہماری معلومات میں اضافہ کرنا نہ بھولیں۔ اب رہا سوال مصالحہ جات کا‘ اگر آپ باورچی کی تحریر کردہ فہرست کے مطابق مہیا کرینگے تو یقینا وہ اس میں اپنے کمالِ فن سے چار چاند لگا دینگا۔ لیکن زمانے کی ستم ظریفی یہ ہے کہ بھلاوے کی چرونجی اور خشخاش کی گراں نرخ کاجو اور تخمِ تربوز ڈال کر توہینِ قلیہ کے مرتکب ہورہے ہیں ساتھ ہی نان کی بھی عجیب دُرگت بنائی جارہی ہے‘ گیہوں کے آٹے میں مناسب مقدار میں میدہ ملاکر نان تیار کی جاتی جو انتہائی خستہ اور لذت سے بھرپور ہوتی اور دو تین دنوں تک اہلِ خانہ کو روٹی پکانے کی حاجت نہ پڑتی لیکن آج کل بازاری آٹے نے نان پر دوسرے دِن کے سورج کی چمک سے محروم کردیا اس طرح اور دن ہی میں اس میں تارے ٹوٹتے نظر آتے۔
گھپ اندھیروں میں پکوان کا مطلب دن کا کھانا اور سورج کی کرنوں میں دیگیں چڑھانے کا مطلب رات کا کھانا‘ صبح کی اوّلین ساعتوں میں منعقدہ تقریبِ عقد کے طعام کی تیاری شب کے آخری پہر ثُلث سے شروع کی جاتی ہے اس میں صاحبِ خانہ (میزبان) اپنی میٹھی نیند کی قربانی دے کر دن تمام مہمانوں کا استقبال کرتے اس کے باوجود کچھ شرارتی اور مجبور دعوتی گھات لگاکر کسی بھی وقت نازل ہوجاتے‘ مجبوراً اور بے بسی کی حالت میں دو نان ایک کٹورہ قلیہ اُن کے سامنے بطورِ ذائقہ پیش کردیا جاتا۔ اس کے برعکس رات میں منعقدہ دعوتِ طعام میں کھانا سورج کی روشنی میں پکایا جاتا جس میں تھکن کا احساس کم ہوتا اور دعوتی بھی جلد سے جلد فارغ ہوکر شب بسری کے لیے اپنے ٹھکانوں کا رُخ کرتے۔ یہ ہے رات اور دن کے کھانو ںکی مختصر رُوداد۔
آداب‘ قانونِ مہمان نوازی:۔ نان قلیہ کے لغوی معنیٰ نرم و تر نوالہ ہے، جسے ہر عمر کا چھوٹا بڑا بہ آسانی حلق سے نیچے اُتار لیتا ہے۔ نان و قلیہ ایک لشکری غذا ہے اس کے لیے صف بندی بہت ضروری ہے دو رویہ صف بناکر ہی کھایا جاتا ہے اس میں وسائل رسد کی فراہمی بھی بہ آسانی انجام دی جاتی ہے یہ وہ واحد کھانا ہے جو اجتماعی شکل میں ایک دوسرے کے مدِمقابل بیٹھ کر بہادری کے جوہر دکھانے اور میدانِ کارزار سے سرخرو اپنے اجداد کی ارواح کو خوش کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ آج کل ایک ریٖت چل پڑی ہے کہ لوگ اپنی شان بڑھانے کے لیے اس عظیم لشکری غذا کو اس کی روایت سے ہٹ کر ٹیبل کرسی پر پیش کررہے ہیں اس میں مہمانوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہماری نان و قلیہ شائقین سے مخلصانہ گذارش ہے کہ ایسی دعوتِ طعام سے پرہیز کریں ایک بار آپ لذت سے محروم رہ جائینگے لیکن دامن پر لگے داغ سے بھی آپ محفوظ رہینگے۔

دیگوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
ہیں نان اور کٹورے قومی نشاں ہمارے

نان و قلیہ کھانے کا سلیقہ:۔ جب آپ کے سامنے ہر دو اشیائِ مایحتاج آجائے تو سب سے پہلے ایک خالی کٹورے کی فرمائش کردیں تاکہ لبریز کٹورے کی تری کو کم کیا جاسکے اب باقی ماندہ قلیہ میں نان کے متناسب ٹکڑوں کو اچھی طرح بھگودیں۔ قلیہ جب مانندِ دلدل ہوجائے تو دوسرا قدم اٹھائیں اور بتیس دانتوں کے استعمال کے ساتھ اسکو قابلِ ہضم بنانے کی کوششوں میں جُٹ جائیں۔ اختتامی حصہ میں بطور بدرقہ ایک کٹورہ خالص قلیہ اطمینان قلب کے کے ساتھ نوش فرمائیں (یاد رکھیے اس میں تری اور لحم شامل نہ ہو)۔ قلیہ نوشی کے عمل سے آپ کے شکم پر گرانی نہیں ہونگی‘ دورانِ کھانا کسی کی طرف دھیان نہ دیں‘ بھٹکے ہوئے خیالات آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرسکتے ہیں یہ نہ سونچیں کہ کوئی آپ کو عجیب عجیب شکلیں بناتے ہوئے تک رہا ہے ایسے لمحات میں ہر کوئی وہی حرکتیں کرتا ہے جو آپ سے سرزد ہورہی ہے۔ مصروفِ عمل کے دوران بار بار سر اُٹھاکر رسد فراہم کرنے والوں پر طائرانہ نظریں بھی دوڑائیں جہاں ان کی اور آپ کی نظریں چار ہوئیں فوراً اپنی حاجت کی فرمائش کردیں نان قلیہ کھاتے وقت‘ وقت کی بھی قدر کرنے کے لیے گھڑی پر نظر ڈالتے رہے‘ موبائل کو بند رکھنے میں ہی عافیت ہے بلاوجہ قیمتی وقت ضائع نہ کریں ورنہ۔۔۔۔ آخر وقت تک میدانِ کارزار میں ڈٹے رہیں‘ بوجھل پلکوں کے ساتھ کوشش جاری رکھیے‘ بقول کسی:

گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی نان و کٹورہ مرے آگے

منفی اور مثبت نظر سے میزبانوں کا جتھا گھوم پھر کر صفوں میں مصروف جنگجوئوں کو ’’لیجیے۔ اور گرم لیجیے‘‘ کی بے جا رَٹوں کے دوران اپنے اعزاء کو لحم و تَری سے لبریز پیالے اور تپتے تندور سے برآمد شدہ گرم نان کو پیش کرتے اور عام دعوتیوں کو ’’ہا ہے‘‘ کہہ کر ڈرا دیتے جس سے سہم کر بے چارے ٹھنڈی غذا پر ہی اکتفاء کرلیتے، اس عمل سے میزبان کی اقرباء پروری کھل کر سامنے آجاتی اور یہی حرکت صفوں میں بگاڑ کا سبب بنتی ان سے حکمت ِ عملی سے نپٹا جاسکتا ہے اس کے لیے بزرگوں کے آزمودہ نسخوں سے آپ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جہاں میزبان کی بھی ایک نہیں چلتی۔ طعام گاہ میں داخلہ کے ساتھ ہی دستر خوان کا رُخ نہ کریں۔ ایک اُچٹتی نظر چاروں طرف دوڑائیں۔ اگر آپ لڑکی والوں کی طرف سے مدعو ہیں تو نوشہ کے خیمے میں جگہ بنائیں اور اگر آپ دولہے کی فوج کے سپاہی ہے تو لڑکی والوں کے خیمے میں تشریف رکھیں اسی میں آپ کی بھلائی ہے اور آپ ہر دو معاملوں میں نان و قلیہ دیگر لوازمات کے ساتھ کھا پائینگے۔ اور اگر خدانخواستہ ان دونوں خیموں میں آپ کی دال نہیں گلتی ہے تو پھر ایسے دوستوں کے حلقہ پر اپنی نظریں مرکوز کریں جو ایک ہی دعوت نامہ پر شریکِ محفل ہیں کیونکہ ان کے لیے دونوں ہی جانب سے خصوصی مراعات مہیا ہوتی ہیں۔ عام نان کی بجائے بصورتِ کلچہ اور لحم و تَری سے بھرا بادیہ ان کے دستر کی زینت بنتا ہے۔ ذی حیثیت دعوتِ طعام میں میٹھالیٹکل مزعفر‘ ڈبل کا میٹھا‘ شاہی ٹکڑا‘ خوبانی اور کھیر عام طور پر سب سے آخر میں پیش کیا جاتا ہے آپ کی جلد بازی آپ کو اس لذتِ شیرین سے محروم کرسکتی ہے ایسے موقع پر جان بوجھ کر تاخیر کی جاتی ہے تاکہ نان و قلیہ کی افادیت قائم رہ سکے۔ نان و قلیہ دیر ہضم غذا ہے جو کم سے کم دو وقت کے ناغہ کا سبب بنتا ہے اسی لیے اس کے شیدائی دوسرے غیر وطنی کھانوں پر اسے فوقیت دیتے ہیں۔ اکثر چٹورے قسم کے افراد منہ چپڑی تعریفوں کے ایسے پُل دوبارہ دعوتوں کی رونق بنتے اور الحمدللہ کہہ کر دو نان اور تین کٹورے ہضم کرنے کے لیے باندھتے ہیں۔ خیر آپ اپنی نگاہیں نیچی کرکے اپنا فریضہ ادا کریں۔ نظروں کی بے چینی آپ کو شک کے دائرے میں کھڑا کرسکتی ہے آپ کی ان تمام حرکات و سکنات کو سی سی ٹی وی کیمرہ قید کررہا ہے اس لیے بے تکی حرکات سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔
فراغتِ طعام کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کو پہنچوں تک اچھی طرح دھولیں‘ صابن کی خواہش نہ کریں پہلی دو صفوں کی تکمیل کی حد تک صابن اپنی موجودگی درج کراتا ہے اس کے بعد آنے والی صفوں کے لیے وہ جھاگ بن کر تحلیل ہوجاتا ہے‘ ہاں البتہ اپنی جیب میں دو لیموں لیکر دسترخوان پر حاضر ہوئے ہوں تو نصف لیموں سے بھی اپنے ہاتھ کی چکنائی کو دور کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا اُصولوں اور ہدایات پر عمل کرکے آپ اپنے ذوقِ طعام سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اور نان و قلیہ کی اِفادیت کو ہمیشہ کے لیے دائم و قائم کرئیے ہمارا یہ دوسرا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہوکر قارئین اور شائقین کو ذائقہ کے سفر میں صحیح رہنمائی کا موجب بنے گا۔ تبصرہ کے لیے کھلا اور وسیع عام و خاص کا ادبی میدان موجود ہے۔

سب کہاں اِک دو کٹوروں میں نمایاں ہوگئیں
دیگ میں کیا بوٹیاں ہونگیں جوپنہاں ہوگئیں

Leave a comment