بابری کوشہید کرنے والے کارسیوک نے کیسے اسلام قبول کیا؟جانئے خود انکی زبانی

علامہ اقبال کے قول ‘پاسپاں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے’ کے مصداق بلبیر سنگھ نے بابری مسجد کی شہادت کے 6 ماہ بعد اسلام کا دامن تھام لیا اور بلبیر سنگھ سے محمد عامر بن گئے۔ بلبیر سنگھ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے بابری مسجد پر پہلا کدال چلایا تھا، لیکن بلبیر سنگھ اب محمد عامر بن چکے ہیں اور اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر مسجدیں تعمیر کرا رہے ہیں۔ بلبیر سنگھ کا تعلق ریاست ہریانہ کے ضلع پانی پت میں راجپوت گھرانے سے ہے، بلبیر سنگھ سخت گیر کار سیوک تھے۔ قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنما لال کرشن اڈوانی نے جب ملک بھر میں ‘رام جنم بھومی رتھ یاترا’ نکالا تو بلبیر سنگھ اس میں پیش پیش تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہ اپنے ضمیرکے قیدی بن گئے اور دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ سے معافی مانگ لی۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب ان کی طبیعت مسلسل خراب رہنے لگی تو کچھ لوگوں نے انہیں کسی مولانا کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔بلبیر سنگھ کا کہنا ہے کہ میں ہر قسم کا علاج کرکے تھک گیا تھا۔نیند نہیں آتی تھی، سکون نہیں تھا، ایک قسم کا انجان خوف ہمہ وقت طاری رہتا تھا۔ڈاکٹروں اور پنڈتوں سے رجوع ہوا، لیکن مجھے کوی فائدہ نہیں ہوا۔کسی نے کہا کہ ایک مسلمان مولانا سے اس سلسلہ میں ملاقات کروں، لیکن میں کسی مسلمان سے رجوع ہونے تیار نہیں تھا۔ دوسری طرف میری صحت بگڑنے لگی تھی۔ میرے اندر وحشتناک کیفیت کا اضافہ ہونے لگا تھا۔ بلبیر سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ بلآخر مولانا کلیم صدیقی سے ملنے کے لیے رضامند ہوگئے۔ انا کا کہنا ہے کہ وہ ان کے پاس صرف تعویذ لینے کے لیے گئے تھے، لیکن مولانا کا مخلصانہ طرز عمل دیکھ کر وہ بہت متاثر ہو ئے۔ وہ کہتےہیں کہ ”اس ملاقات کے بعد میری صحت بھی سنبھلنے لگی جیسے جیسے میری صحت درست ہوئی، میں ویسے ویسے اسلام کے قریب ہوتا گیا”۔ سانحہ بابری مسجد کو یاد کرکے محمد عامر کہتے ہیں کہ وہ دن پوری دنیا بالخصوص بھارت کے لیے ایک سیاہ دن تھا۔ عامر کے مطابق رام جنم بھومی تحریک کوئی سماجی یا مذہبی تحریک نہیں تھی، بلکہ وہ ایک سیاسی تحریک تھی، بلکہ وہ ایک چھوٹی تحریک تھی، جس سے کچھ لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ محمد عامر کے مطابق 100 سال سے زیادہ سے عرصے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک تحریک چلائی گئی۔ جھوٹا پروپیگنڈا کرایا گیا، عام لوگوں کی اس طرح ذہن سازی کی گئی کہ مسلمان ظالم ہوتے ہیں، جہادی اور ا?تنک وادی ہوتے ہیں اور مسلم حکمرانوں نے ہزاروں مندروں کو گرادیا۔ دراصل مجھے اور بہت سے کارسیوکوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا گیا تھا جس کے سبب بابری مسجد کو شہید کرنا جیسا سانحہ ہوگیا۔ محمد عامر کے مطابق بابری مسجد کی شہادت جرم تھا، اگر قانون اسے سزا دیتا ہے تو وہ سزا قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔محمد عامر کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے عہد کیا تھا کہ اپنے گناہوں کے کفارے میں 100 مسجدوں کی تعمیر کرائیں گے۔ محمد عامر اب تک ضرورت کے مطابق ملک کے طول و عرض میں 91 مسجدوں کی تعمیر کرا چکے ہیں۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پرانے دین کی طرف لوٹ آئے ہیں، انہوں نے تبدیلی مذہب نہیں کی ہے۔انکا کہنا ہے ” اللہ مجھے اس دین کے سمجھنے کی ہدایت دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں”۔فی الحال محمد عامر بھارت کے جنوبی شہر حیدرآد میں ‘مسجد رحیمیہ’ کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ محمد عامر کے مطابق یہ مسجد جنوبی بھارت کے لیے دعوت و تبلیغ کا مرکز ہوگا۔

Leave a comment