ہمارا رویہ ، ہماری پہچان

اللہ تعالی کا بے پایاں احسان اور کرم ہے کہ اس نے انسان کو اظہار خیال کے لئے کیا کچھ نہیں دیا، سوچنے سمجھنے والا دل اور دماغ دیا، دیکھنے کے لیے آنکھیں دی، سننے کے لیے کان دئیے، بولنے کے لیے زبان اور چلنے پھرنے کے لیے پیر دئے۔ اور بہت ساری نعمتوں کو جسم کے پیکیج کے ساتھ ہمیں بخشا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نعمتوں کے کھو جانے کے بعد اس کا احساس ہوتا ہے۔ یا جب ہم ہسپتال جاتے ہیں یا بیمار پڑتے ہیں تو ان نعمتوں کی قدر بہت زیادہ ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس طرح مختلف بیماریوں کی وجہ سے کئی طرح کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اور ہم اس سے محفوظ ہیں ۔ اس سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ نعمتیں چند دنوں کے لئے ہوتی ہے ۔ اگر ان نعمتوں کا فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ نعمتیں ضائع ہو جاتی ہے اور اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے بہت بھاری قیمت دینی پڑتی ہے.
جب ایک ۸۰ سالہ بوڑھے شخص کا آنکھوں کا آپریشن کیا گیا ۔ تو وہ ہسپتال کا بل دیکھ کر وہ شخص رودیا بہت زیادہ غمگین ہو گیا۔ ہسپتال میں موجود تمام ڈاکٹر کی ٹیم اور اسٹاف اس کو تسلی دے رہے تھے کہ کوئی بات نہیں آپ کو بل میں رعایت دی جائے گی۔ تب وہ بوڑھا شخص کہا کہ اسی ٨٠ سال تک اس بینائی کو بغیر قیمت کے ادا کر رہا تھا اللہ تعالی نے کبھی کوئی قیمت نہیں مانگی اور آج اس بینائی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کئی گنا قیمت دینی ہے۔ جس طرح نعمت اور وقت لازم وملزوم ہیں۔ اگر اس وقت کے اندر اگر ہم نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا تو پھر اس کے کھو جانے کے بعد اس کو حاصل کرنا ناممکن اور مشکل ترین ہوجاتاہے۔
اسی طرح قوموں کو بھی وقت اور نعمتیں دی جاتی ہے۔ اور جب قوم اپنے برے اعمال سے ان نعمتوں کو ضائع کر دیتی ہیں تو ان سے وقار، دولت اور عزت چھین لی جاتی ہے۔ اور ان پر ذلت اور مسکنت ڈال دی جاتی ہیں۔ اور آنے والی کئی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ شاید آج ہم اسی دور میں جی رہے ہیں۔ جب ہمارے پاس اختیارات، دولت اور طاقت تھی۔ تب ہم نے اس حق کو قائم نہیں کیا اور اپنے دین سے خیانت کی۔ اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے کئی مشکل کھڑی کر دی اور آج ہماری کوئی عزت باقی نہیں رہی۔ آج ہمیں دیواروں سے لگایا جارہاہے۔ زندگی کا زاویہ تنگ کیا جارہا ہے۔اور زوال ہمارا مقدر بن گیا ہے۔ قیادت کا فقدان اس لئے کہ ہم روحانی اور اخلاقی طور پر انحطاط کا شکار ہیں۔
آخر وہ کونسے اسباب ہیں جو ہمیں اس مقام تک پہنچائے ہیں۔ دراصل جو قوم جس طرح کے طرز عمل اور رویہ اختیار کرتی ہے، قدرت بھی انھیں اسی جانب دھکیل دیتی ہے۔ “شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے، اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خوددار اور غیرت مند ہے کہ اوروں کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا، بلند پرواز ہے، خلوت نشیں ہے، تیز نگاہ ہے۔” عقاب ہر لحاظ سے پرندوں کا بادشاہ کہلانے کا مستحق ہے۔ اسی طرح شیر کو جنگل کا راجہ کہتے ہیں کہ وہ بہادر، بے خوف اور نڈر ہوتا ہے۔ اور دوسرے جانور پر اس کی ہیبت ہوتی ہے۔ یہ خود شکار کرتا ہے، دوسروں کے کئے ہوئے شکار یا مُردہ جانور کو نہیں کھاتا۔ اسی لئے دونوں میں بہت زیادہ مطابقت ہے۔ اور دونوں عقاب اور شیر میں وہ رویہ اور اعتماد موجود ہوتا ہے۔ جو ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔ بالکل اس طرح مسلمان کلمہ کی بنیاد پر مسلمان کہلاتا ہے۔اور عقیدہ ہی اس کی قوت اور طاقت ہے۔ اور جس کی بنیاد توحید پر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ توحید ایک ایسی زندہ جاوید حقیقت جب مرد مومن لا الہ کو اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو صرف الفاظ نہیں ہوتے وہ اس کے وجود میں ان روحانی اور اخلاقی قوتوں کو جنم دیتی ہے۔ امانت وشجاعت اس کی پہچان ہوتی ہے۔ اس کے بعد ؛
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
مگرآج ہمارا یقین اور ایمان کمزور ہوچکا ہے۔ اس لئے کہ ہم دنیا کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں اور موت کا خوف ہم پر طاری ہے۔ رسول صلی علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اسی دور کی نشاندہی کرتے ہوئے فرما یا تھا کہ ایک دور آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑے گی جیسےدستر خوں پر لوگ کھانے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔اور تم لوگ تعداد میں اتنے زیادہ ہونگے۔ جیسے سمندر میں جھاگ، پوچھا گیا کہ پھر ہمارا یہ حشر کیوں ہوگا؟ اس لئے کہ دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی تذھب ریحکم اور تمہیں ” وھن ” کی بیماری لگ جائے گی۔ کسی نے پوچھا ” وھن ” کیا ہے ؟ فرمایا حب دنیا اور (راہ حق میں) کراہت الموت (ابو داؤد )
اگر ہم ہمارا محاسب کرے تو پتہ چلے گا کہ آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں، جمود وتعطل کا شکار ہے، اور اپنے اصل مقصد سے ہم غافل ہیں، جس کے نتیجے میں ہماری ترجیحات بھی بدل گئی ہے۔ اسی لئے ہمارے اندر وہ اسلامی روح موجود نہیں ہے۔ آج دشمن کے مقابلے میں ہماری کوئی حثیت نہیں ہے۔ اور جب انسان جب خیانت کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنی ذات سے کرتا ہے۔ ہم نے اپنے دین سے خیانت کی اور اسی کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ اس کی وجہ قرآن سے دوری، دین کے اصولوں سے انحراف، مسلکی اختلافات، تعلیمی پسماندگی اور مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ اور ہم نے دینی تعلیمات ،اقدار اور تہذیب کو منافقت کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اور ہم اسی لئے دربدر بھٹک رہے ہیں۔ ہمیں اپنے رویہ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کو بیدار کرنا ہوگا۔ اپنی بے حسی کو دور کرنے کے ساتھ اپنی سوچ وفکر میں وسعت پیدا کرے۔ مستقل حرکت ہی زندہ قوم کی پہچان ہے۔ اللہ کی ذات پر کامل یقین ہی ہمیں منزل مقصود تک لے جائیگی۔ اور اپنی روایات ، تہذیب اور دینی تعلیمات کو برقرار رکھے۔ یہ سچ ہے کہ جو قومیں اپنا ماضی، اپنی روایات، اپنا تشخص بھول جاتی ہیں، دنیا انھیں فراموش کر دیتی ہے اور جو قومیں اپنے ہنرمندوں، اپنے محسنوں، اپنی روایات کو یاد رکھتی ہیں، وہی کامیاب رہتی ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ ” اے ایمان والو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے ۔”اے اللہ ہمیں دین پر عمل کرنے والا بنائےللہ اور ہماری مدد فرمائے آمین
سعیدہ شیخ
اندھیری: ممبئ
sz101969@gmail.com
Leave a comment