کبھی ممکن ہے کوئی خواب حقیقت نکلے 

(ضلع پریشد کے موجودہ اُردو مدارس کی زبوں حالی کے حوالے سے)

Iqbal majeedulla new
 از: اقبال مجید اﷲ۔(صدرانجمنِ ترقی اُردو (ہند) شاخ ، پربھنی )
 Mobile: 09420816696 Email:iqbalmajeedulla@gmail.com
حال ہی میں یہ خبر نظروں سے گذری کے ملٹی پرپز ہائی اسکول ، پربھنی جو ضلع پریشد کے تحت اُردو و مراٹھی دونوں ہی میڈیم کے طلباءکے لئے کام کررہا ہے۔ اب اُسے بند کر نے کی بات کہی جارہی ہے۔خیال رہے کہ ملٹی پرپز ہائی اسکول 1930ءکے آس پاس شہر پربھنی میں مدرسہ فوقانیہ کے نام سے سابق نظام حکومت کی جانب سے اُردو مراٹھی کے طلبا کے لئے قائم کیا گیا تھا۔1950ءتک ضلع پربھنی کے تمام تعلقوں کے طالب علم یہاں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے آتے رہے۔اور یہیں سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنے اسکول کا بھی نام روشن کیا۔ اُن کی تعلیم و تربیت میں اُس وقت کہ قابل اساتذہ کابھی بہت بڑا رول رہا۔ آج کے طالب علم شاید یہ بات سن کر یقین نہیں کریں گے کہ اُردو میڈیم کے طلباءکو غیر مسلم اساتذہ اور مراٹھی میڈیم کے طلباءکو مسلم اساتذہ پڑھاتے تھے نہ انھیں کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوئی بلکہ سائنس کے غیر مسلم اساتذہ جہاں تک ممکن ہوسکے اُردو میں سائنسی اصطلاحات روانی سے پڑھاتے تھے اور اگرکوئی اصطلاح اُردو و میں نہ مل سکے تو اُسے انگریزی میں پڑھاتے تھے اور طلباءسے کہتے کہ اگر تمہیں اُردو میں اس کا ترجمہ کہیں مل جائے تو مجھے ضرور بتا دینا۔ اس نوعیت کے شاگردوں اور اساتذہ میں ایک رشتہ قائم تھا۔یہ اُن اساتذہ کی محنت اور شفقت کا ہی اثر تھا یہاں کہ طالب علموں کی تربیت مضبوط بنیادوںپررکھی گئیں۔جن مدارس میں ہم نے جہاں اپنی زندگی کا بڑا حصّہ گذارا اُس سے وابستگی ایک فطری بات ہے اس اسکول سے کئی یادیں ہمیشہ ہی تازہ رہتی ہیں انھیں آسانی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اب اس اسکول کو بند ہونے کی خبر اُن طلبہ کے لئے ایک صدمے سے کم نہیں مگر اب اس اسکول سے میرے رشتہ کو ایک جذباتی انداز سے پرے ہیں منطقی انداز میں اس کے بارے میں غور کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جو مدارس جو ضلع پریشد کے تحت کام کررہے ہیں و کم و بیش تیزی سے تنزل کی طرف گامزن تھے۔اس کی بڑی وجہ وہاں کے طلباءکی دن بدن کم ہوتی تعداد اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم وجوہات پر غور کریں۔اور اس کے بعد ہی ہم اس نتیجے پر پہونچ سکیں گے کہ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔
ملک کی آزادی اور سابق ریاست حیدرآباد کے سقوط کے بعد اور ریاست مہاراشٹر کے قیام تک اس بارہ سال کے عرصے میں مراٹھی اور اُردو میڈیم کے اسکول نہایت کامیابی کے ساتھ چلتے رہے ان کے علاوہ کچھ اضلاع میں مراٹھی میڈیم کے مدارس بھی قائم تھے مگر زیادہ تر طالب علم سرکاری مدارس میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔یہ تمام مدارس محکمہ تعلیمات کے تحت کام کرتے تھے ۔یکم مئی ۰۶۹۱ءمیں ریاست مہاراشٹر کے ایک علحیدہ ریاست او پنچایت راج کے نفاذ اور ضلع پریشدوں کے قیام کے بعد بشمول مراٹھی اور اُردو مدارس ضلع پریشد کے تفویض کردئیے گئے ضلع پریشدکے تحت مراٹھی اور اُردو میڈیم کے مدارس دیہاتوں سے لے کر تمام تعلقہ جات اور ضلع کے مقام پر مدارس قائم کئے گئے اس کے لئے درکار بنیادی اساتذہ اور مدارس کے لئے پختہ عمارتوں اور سہولیات فراہم کی گئیں۔ یہ سلسلہ ۰۷۹۱ءتک بخوبی چلتا رہا ۔ اس دوران دستور میں اقلیتوں کو دئیے گئے حقوق کو لے کر ان کے لئے علحدہ مدارس کا قیام کا مطالبہ سامنے آیا۔مسلم تنظیموں نے اپنے لئے علحدہ اُردو میڈیم کے مدارس کو منظوری دینے کے لئے حکومت پر اصرار کیا اور اس کے نتیجہ کے طور پر کئی مسلمانوں کے خانگی تعلیمی ادارے پورے مہاراشٹر میں رفتہ رفتہ قائم ہوتے گئے۔ ابتداءمیں جو ادارے جو صرف تعلیمی مقاصد کو لے کر قائم ہوئے وہ بعد میں تعلیمی مقاصد کے بجائے تعلیم کے نام پر وسیع پیمانے پر تعلیمی تجارت کے شکل میں سامنے آئے۔اِن مدارس کو ضلع پریشد کے محکمہ تعلیمات کے ذریعہ ریاستی حکومت کو منظوری دینے کے بعد قائم کئے گئے اور نتیجہ کے طور پر برسر اقتدار سیاسی جماعتوں سے وابستہ اُن کے حلیفوں نے اور اُن کے ذمہ داروں نے بڑے پیمانے پر اس سے فائڈہ اٹھاتے ہوئے اُن کے زیرِ اثرتعلیمی ادارے اور اُن کے قائم مدارس کا ریاست بھر میں ایک جال پھیل گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دیکھا گیا کہ خانگی تعلیمی ادارے اُن ذمہ داروں کو بھی دئیے گئے اور اُن تعلیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ انھیں اس شعبہ میں دلچسپی کی بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ انھیں اس اسکول کے لئے جو اساتذہ منظور کئے جاتے ہیں اُس کے انھیں تقررات کے مکمل اختیارات ان اداروں کے انتظامیہ کو دئیے گئے۔ اسطرح سے یہ اسکول کے تابع اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔
ضلع پریشد کے اُردو مدارس جن کا تقرر مطلوبہ قابلیت کے حامل ایک بورڈ کے ذریعہ کیا جاتا ہے یہ تعداد کے مطابق کیا جاتا ہے اُن کی ہاہانہ یافت تمام سہولتوں کے ساتھ ریاستی حکومت سے ادا کیا جاتا ہے برخلاف اس کے خانگی تعلیمی اداروں اور سوسائٹی کے تحت کام کرتے اُن کا تقرر مکمل طور پر اُن کا انتظامیہ کرتا ہے اُن کی تنخواہیں اور بھتے وغیرہ ضلع پریشد کی جانب سے منظور اساتذہ بینکوں کے ذریعے دئیے جاتے ہیں۔ گذشتہ بیس برس سے زائد ضلع پریشد کے مدارس اور اداروں کہ تمام مدارس کے سارے نتائج کا ایک سرسری جائزہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ضلع پریشد کی انتہائی مایوس کن اور اداروں کی مدارس کے کچھ بہتر نتائج کا سرسری جائزہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس سے اُردو داں طبقے کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ضلع پریشد کے مدارس کا مسلسل گرتا ہوا سالانہ نتایج کا گراف طلباءاور اُن کے سرپرستوں کو اس کی جانب راغب نہیں کرتا بلکہ اب وہ مدارس جو کہ بہترین نتائج دیتے ہیں اُن میں اپنے بچوں کو داخل کروانا اُن کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اب ضلع پریشد کے اسکولوں میں وہی طلباءشریک ہوتے ہیں وہ بہت کم فیس وغیرہ دے پاتے ہیں اب نہ ضلع پریشد کے عہدہ داروں کو اُردو میڈیم کے مدارس سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ رفتہ رفتہ اُن کی تعداد کی کمی کے باعث اُن کوبند کرنے کی تجویز حکام بالا کو پیش کی جارہی ہیں۔ضلع پریشد کے اِن مدارس میں جو بیس تیس سال پہلے جو تعمیر کئے گئے تھے اب اُن کی حالت تعلقوں سے لے کر دیہاتوں تک نہایت ہی خستہ حالت میں ہیں اب ان مدرسوں پر کھنڈروں کا گمان ہوتا ہے یہ اب ان عمارتوں میں دیگردفاتر وہاں کام کررہے ہیں ۔مجموعی طور پر یہ مدارس اُس زبان کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں جو اس ملک میں زندہ ہے اس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب بھی حالات قابو سے باہر نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔اس کے لئے کچھ تجاویز پیش کی جاتی ہے۔
(۱)ضلع پریشد کے اُرد و مدارس کا سب سے اہم مسئلہ یہاں طلبا کی گھٹتی ہوئی تعداد ہے اس کے لئے ضلع پریشد کے محکمہ تعلیم کے عہدیداروںکے تعاون سے اسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ماہ جون میں جب نئے تعلیمی سال کے آغاز میں جو طلباءپانچویں جماعت اور آٹھویں جماعت میں داخلہ لیتے ہیں وہ مختلف مدارس میں داخلہ کے لئے بلاک ایجوکیشن آفیسر کے ذریعہ کیا جائے جو ضلع سے لے کر تمام تعلقوںمیں یہ کام کررہے ہیں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ طلبا اور اُن کے سرپرست جو انھیں داخلہ دینا چاہتے ہیں وہ بلاک ایجوکیشن آفیسر ( بی ۔ای۔او) کے پاس اپنی درخواستیں دیں درخواستوں میں اس بات کی وضاحت ہوگی کہ وہ اپنے سہولت کے اعتبار سے کس اسکول میں داخلے کے خواہشمند ہے ۔یہ تمام درخواستیں قبول ہونے کے بعد اب اِن کی تعداد اور مدارس کے طلباءکو ذہن میں رکھتے ہوئے ان طلباءکو اس طرح اُن میں داخلہ دیں جس سے تمام مدارس میں یکساں طور پر اُن کا داخلہ ممکن ہو۔ یہ طریقہ کار سے ضلع پریشد اور خانگی تعلیمی اداروں کے مدارس میں جاری یکساں طور پر داخلہ ممکن ہوگا اب یہ نہیں ہوگاکہ سوسائٹی کے قائم مدارس کی تعداد Aسے لیکر Zتک پہنچ جائے اور ضلع پریشد کے مدارس بند ہونے کی بوبت آجائے
(۲) عام طور پر یہ دیکھا جارہا ہے کہ نئے تعلیمی سال میں سوسائٹی اور دیگرخانگی اداروں کے مدارس اُن کا انتظامیہ اور اساتذہ جس طرح ممکن ہوسکے ان طالب علموں کو اُن کے اپنے مدارس میں داخلہ لینے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ برخلاف اس کے ضلع پریشد کے مدارس یہ کام اُس مستعدی سے نہیں کرتے ہیں اور دوسرے ان مدارس کے خراب نتائج ان طالب علموں کو سرپرستوں کو اس جانب راغب نہیں کرپاتے اور بہت ہی کم تعداد میں داخلہ لیتے ہیں۔اور بالآخر اِن کی تعداد میں واضح طورپر کمی نظر آتی ہے۔
(۳) ضلع پریشدکے مدارس کی خستہ حالی اس کا ایک اہم سبب ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ مناسب فرنیچر کا انتظام اور دیگر سہولیات طلباءکو ایک اچھا تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے۔
(۴) طلباءکے سرپرستوں کی ان مدارس کی جانب مسلسل دلچسپی اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت ان کے مسائل کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ محکمہ تعلیمات کے وہ عہدہ دار جو پابندی سے ان مدارس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہیں کہ اُن کا تعلیمی معیار کس درجہ کا اس کے لئے بہتر ہوگا اُردو سے واقف ہی یہ کام انجام دیں۔
(۵) اس کام کے لئے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ بیرونی ایجنسیز کے ذریعے یہ کام کیا جائے جو نہایت ہی غیر جانب دارانہ اُن کے تعلیمی معیار کو جانچ سکے۔
(۶) اساتذہ کے تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لئے مسلسل ریفریشر کورسیس کا اہتمام کیا جائے۔
(۷) اساتذہ کی سالانہ اضافی اس صورت میں ہی دی جائے جن کے طلبہ کے نتائج بہتر ہوں اور خراب نتائج کی ذمہ دار اساتذہ بھی تصور کئے جائے۔
یہ مضمون شہر پربھنی کے ضلع پریشد ملٹی پرپز ہائی اسکول کی موجودہ صورتحال اور اس کے بند ہونے کے قومی امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضلع پریشد کے اُردو مدارس جو ابتدائی جماعتوں سے ہائی اسکول تک شہر پربھنی اُس کے تعلقاجات اور دیہاتوں میں تعلیم اس مقدس پیشے سے جڑے ہوئے ہیں اُن کا ایک سرسری جائزہ لیا گیا ا س کا مقصد صرف ان کے مسائل کو سمجھنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے جو میرے مشاہدات پر مبنی ہیں اس کے علاوہ میںآج کچھ ضلع پریشد
کے سینئر اساتذہ جو اپنے خدمات سے سبکدوش ہوچکے ہیں اُن کے درینہ تجربات کی روشنی میں اس موضوع پر اُن سے بات چیت کی ہے اور جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ قارئین کے لئے پیش کئے گئے ہیں میں اپنے اس مضمون میں صرف ضلع پریشد کے اُردو میڈیم کے مدارس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ضلع پریشد کے مدارس اُردو و مراٹھی میڈیم ساتھ ساتھ کام کررہے ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ مراٹھی میڈیم کے مسائل اُردو میڈیم کے مدراس سے زیادہ مختلف نہیں اس کی جانب بھی حکومت کی توجہ بے حد ضروری ہے میں اپنے پڑھنے والوں اور بالخصوص وہ احبا ب جو درس و تدریس سے وابستہ رہے اور جو تعلی������ی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتے ہوں اُن سے ادباً التماس ہے کہ وہ ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس سلسلے میں مشورے دیں تاکہ اُسے اُس کی روشنی میں مستقبل کا ایک لائحہ عمل ترتیب دیاجاسکے یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں مگر اتنا یقیں ضرور ہے کہ ہم کسی نتیجے پر ضرور پہونچ جائیں اور شاید اسی لئے مرحوم بشر نواز کا یہ شعر ہمیں بڑی حد تک تقویت دیتا ہے۔
اسی اُمید پہ خوابوں سے سجا لی نیندیں
کبھی ممکن ہے کوئی خواب حقیقت نکلے
Leave a comment