نئی ٹیلیکام پالیسی کو کابینہ کی منظوری ، 4 ملین روزگار پیدا ہونے کی توقع
نئی دہلی۔ 26 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی کابینہ نے آج نئی ٹیلیکام پالیسی کو منظوری دے دی جس کا نام اب نیشنل ڈیجیٹل کمیونیکیشنس پالیسی (NDCP) 2018ء ہوگا۔ اس پالیسی کے تحت 100 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا ہے اور سال2022ء تک اس شعبہ میں 4 ملین روزگار کے موقع حاصل ہوں گے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ کابینہ نے این ڈی سی پی کو منظوری دے دی ہے۔ مسودہ پالیسی کے مطابق این ڈی سی پی کے ذریعہ ہائی اسپیڈ براڈ بیانڈ صلاحیتوں میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ 5G جیسے عصری ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے ملک میں قابل متحمل شرحوں سے مواصلاتی نظام کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ ملک بھر میں آپٹیکل فائبرس کو پھیلا جائے گا۔ اس مسودہ پالیسی میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسپیکٹرم چارجیس جیسے لیوز کو معقولیت پسند بنایا جائے گا تاکہ قرض کے دلدل میں پھنسے ٹیلیکام شعبہ کو دوبارہ کارکرد بنایا جاسکے۔ مجوزہ ٹیلیکام پالیسی میں فی سیکنڈ 50 میگاپیٹ کے ساتھ رسائی حاصل کرنے والا براڈ بیانڈ فراہم کیا جائے گا جس میں 5G خدمات حاصل ہوں گے اور سال 2022ء تک 40 لاکھ نئے روزگار حاصل ہوں گے، اس میں آپٹیکل اسپیکٹرم قیمتیں بھی شامل ہوں گے جس میں قابل لحاظ اور قابل متحمل ڈیجیٹل کمیونیکیشن تک رسائی حاصل ہوسکے گی۔ سب سے اعلیٰ اسپیکٹرم قیمت اور اس سے مربوط چارجیس میں ٹیلیکام سرویس شعبہ کیلئے اصل تشویش کا باعث ہیں۔ اس وجہ سے ٹیلیکام شعبہ 7.8 لاکھ کروڑ روپئے کے قرص تلے دبا ہوا ہے۔ مرکزی کابینہ نے آج شوگر انڈسٹری کیلئے بھی 5,500 کروڑ روپئے کا پیاکیج منظور کیا ہے۔ حکومت نے گنا پیدا کرنے والوں کو پیداواری امداد کو دوگنا کردیا ہے اور ٹرانسپورٹ سبسڈی بھی ملوں کو دی جائے گی تاکہ وہ 5 ملین ٹن تک گنے کو برآمد کرسکیں۔ کابینی کمیٹی برائے معاشی اُمور نے وزارت اغذیہ کی تجویز کو منظوری دی تھا کہ شوگر کے ذخیرہ کو خاطر خواہ بنایا جاسکے۔ ملوں کے ماہانہ 13 کروڑ روپئے کے قریبی بقایاجات کو منظور کیا جائے۔ کمیٹی نے گنا پیدا کرنے والوں کیلئے جملہ 5,500 کروڑ روپئے کی امداد دینے کی منظوری دی ہے۔ بعض ریاستوں میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور آئندہ سال 2019ء کے وسط میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے حکومت نے پیداواری امداد بڑھانے اور گنا پیدا کرنے والے کسانوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دوسرا مالیاتی پیاکیج ہے تاکہ شوگر انڈسٹری کی راحت دی جاسکے۔ کابینہ کے اجلاس سے قبل بھی ملک میں کئی شوگر انڈسٹریز بھی سب سے زیادہ تجارتی سرگرمیاں دیکھی گئیں۔ یہ دوسرا مالی پیاکیج ہے اور پہلا جون 8,500 کروڑ روپئے پیاکیج منظور کئے گئے تھے۔ شکر کی صنعت میں بھاری پیداوار یعنی 32 ملین ٹن 2017-18ء (ستمبر تا اکتوبر) کے پیش نظر اس کے اسٹاک میں صرف 10 ملین ٹن ہی کھپت ہوئی۔ شکر کی فاضل پیداوار کے باعث شکر کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ کے پیش نظر 5.50 روپئے فی کنٹل کے حساب سے 13,000 روپئے کروڑ روپئے کی مدد کا اعلان کیا ہے۔ قیمتوں میں بھاری گراوٹ کے باعث اس کے ٹرانسپورٹ میں بھی حکومت نے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔