آدھار جائز، بینک کھاتوں، موبائیل فون، اسکول میں داخلوں کیلئے لزوم کالعدم
سپریم کورٹ دستوری بنچ کا تاریخی فیصلہ، ہندوستان میں اب آدھار کے بغیر جینا ناممکن، جسٹس چندرا چوڑکا تاثر
نئی دہلی ۔ 26 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے مرکز کی فلیگ شپ آدھار اسکیم کو دستوری اعتبار سے جائز قرار دیا جاتا ہے۔ بینک کھاتوں، موبائیل فونس، اور اسکول میں داخلوں کے بشمول اس کی چند شرائط کو کالعدم کردیا۔ چیف جسٹس دیپک مصرا کی قیادت میں ایک پانچ رکنی دستوری بنچ نے کہا کہ انکم ٹیکس ریٹرنس اور مستقل اکاونٹ نمبر (پیان) کی فراہمی کیلئے اس (آدھار) کے لزوم کو برقرار رکھا لیکن بینک کھاتوں کو آدھار سے مربوط کرنا لازمی نہیں ہوگا اور موبائیل کنکشن کیلئے ٹیلیکام خدمات فراہم کنندگان آدھار کو مربوط نہیں کرسکتے۔ اسکول میں داخلوں کیلئے بھی آدھار کا لزوم نہیں رہے گا۔ علاوہ ازیں سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایگزامنیشن (سی بی ایس ای)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور میڈیکل اٹنرینس کیلئے قومی اہلیت و داخلہ ٹسٹ (نیٹ) میں شرکت، کیلئے بھی آدھار کارڈ لازمی نہیں رہیں گے۔ تاہم سرکاری اسکیمات سے استفادہ کیلئے اس کے لزوم کی اجازت دیدی گئی۔ سپریم کورٹ بنچ نے آدھار (مالی و دیگر رعایتوں، فوائد اور خدمات کی منتخب فراہمی) قانون 2016ء کے تحت قومی سیکوریٹی لزوم کو بھی کالعدم کردیا۔ بنچ نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ آدھار کا مقصد سماج کے نظرانداز شدہ اور محروم المراعات طبقات تک فوائد پہنچانے میں مدد کرنا ہے اور کہا کہ اس اسکیم کو چاہئے کہ وہ نہ صرف شخصی بلکہ سماجی اعتبار سے بھی عوام کی عزت و احترام کو بھی ملحوظ رکھے اور وسیع تر عوامی مفاد کی خدمت کرے۔ آدھار کا مطلب منفرد ہے چنانچہ بہتر یہی ہوگا کہ اس کو بہتر کے بجائے منفرد ہی بنایا جائے۔ اس مسئلہ پر فیصلوں کے تین حصوں کا اعلان کیا گیا۔ پہلے حصہ کا اعلان جسٹس اے کے سیکری نے کیا۔ چیف جسٹس دیپک مصرا، جسٹس اے ایم کھانویلکر اور خود انہوں نے (جسٹس سکری) نے یہ فیصلہ لکھا تھا۔ جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ اور جسٹس اشوک بھوشن نے جو پانچ رکنی بنچ کا حصہ تھے، اپنی انفرادی رائے تحریر کی تھی۔ جسٹس چندراچوڑ نے کہا کہ وہ بعض ایسے نظریات کا اظہار کررہے ہیں جو تین ججوں کے فیصلے سے مختلف ہیں۔ جسٹس بھوشن نے کہا کہ تین ججوں کے فیصلے سے وہ متفق ہیں۔ جسٹس سیکری نے آدھار قانون کی دفعہ 57 کو کالعدم کردیا جس کے تحت ٹیلی کام کمپنیوں اور دیگر کارپوریٹ اداروں کو آدھار سے استفادہ کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ رولنگ بھی دی گئی کہ توثیق و صداقت کیلئے موصول شدہ معلومات کو چھ ماہ سے زائد مدت تک رکھا نہ جائے اور حکومت کو ہدایت کی کہ غیرقانونی ایمیگرنٹس کو آدھار نہ دیا جائے۔ آدھار بل کی رقمی بل کے طور پر لوک سبھا میں منظوری کو جائز قرار دیا۔ کانگریس اور اس کے ایک لیڈر جئے رام رمیش نے ایوان میں اس بل کی منظوری کو چیلنج کیا تھا۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ آدھار قانون میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے کسی کی شخصی رازداری کے حق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ جسٹس سیکری نے کہا کہ دنیا کے تحفظ کیلئے بعجلت ممکنہ قانون وضع کیا جائے اور اس تاثر کا اظہار کیا کہ درخواست گذار اکثر دستور کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی کا عذر بیان کرتے ہوئے آدھار کی مخالفت کرتے ہیں ان (درخواست گذاروں) کا احساس ہوتا ہیکہ اس سے سرکاری خفیہ نگرانی و جاسوسی جیسی صوتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ جسٹس سیکری نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ ہندستانی اتھاریٹی برائے منفرد شناخت (یو آئی اے ڈی) نے اندراج کے لئے کم سے کم شخصی، مقامی علاقائی اور بائیومیٹرک تفصیلات جمع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منفرد شناختی ثبوت نے سماج کے محروم المراعات اور نظرانداز شدہ طبقات کو ایک شناخت دی ہے اور اس کی مستثنیٰ اور نقل کے حصول کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس کے تحفظ کیلئے خاطرخواہ دفاعی میکانزم ہے۔ جسٹس بھوشن نے اس نظریہ سے اتفاق کیا کہ آدھار کو موبائیل نمبرس سے مربوط کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس بحث کو مسترد کردیا کہ آدھار کے شخصی و رہائشی علاقہ کی معلومات سے شخصی رازداری کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص دیگر شناختی ثبوتوں کے لئے بذات خود اس قسم کی بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔ جسٹس چندراچوڑ نے کہا کہ آدھار کو رقمی بل کی حیثیت سے منظور نہیں کیا جانا چاہئے تھا کیونکہ ایسا کرنا دستورکے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آدھار کو اس کی موجودہ شکل میں دستوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جسٹس چندراچوڑ نے واضح کیا کہ موبائیل اب ہر شخص کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے اور آدھار سے اس کو مربوط کرنے سے کسی شخص کی رازداری، آزادی اور خوداختیاری کو سنگین خطرہ لاحو ہوسکتا ہے۔ انہوں نے موبائیل خدمات فراہم کنندگان کی طرف سے آدھار ڈیٹا کی تحدیف کی حمایت کی۔ جسٹس چندراچوڑ نے کہا کہ ڈیٹا کی جمع بندی سے شہریوں کی انفرادی پروفائلنگ ( خفیہ نگرانی و زمرہ بندی) ہوگی۔ آدھار اسکیم سے معلوماتی رازداری کی خلاف ورزی بھی ممکن ہے۔ ڈیٹا مخدوش و غیرمحفوظ ہوسکتا ہے اور تیسرے فریق کی طرف سے اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نیز شہریوں کے سیاسی نظریات کا پتہ چلانے کیلئے بھی شخصی تفصیلات استعمال کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی بھلائی کے فوائد کی فراہمی سے انکار پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ تاہم جسٹس چندراچوڑ نے کہا کہ بہرحال ہندوستان میں اب آدھار کے بغیر زندگی گذارنا ناممکن ہوگیا ہے لیکن یہ دستور کی دفعہ 14 کے مغائر ہے اور اگر اس کو ہر قسم کے ڈیٹا سے مربوط کیا جاتا ہے تو حق رازداری غصب ہونے کا اندیشہ ہے۔