کشمیری سائنس دانوں نے نایاب مکھی دریافت کی

سری نگر۔6؍ دسمبر۔ ایم این این۔ تین کشمیری محققین نے ایک نایاب مکھی دریافت کی ہے، جس کا غذائیت سے متعلق سائیکلنگ میں بہت بڑا کردار ہے۔Stratiomys Brunettii نامی اس مکھی کو صہیب فردوس یتو، عامر مقبول اور اعزاز احمد واچکو نے دریافت کیا۔ یہ تینوں احربل، لاڈی آنگن اور گلمرگ میں مکھی کو تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کی دریافت یورپی جرنل آف ٹیکسونومی میں شائع ہوئی ہے۔ محققین میں سے ایک صہیب نے بتایا کہ یہ مکھیاں 2021 میں ان کی ایک مہم کے دوران جمع کی گئی تھیں۔

ہم اکثر مکھیوں کی نئی نسلیں دریافت کرنے کے لیے مہمات پر جاتے ہیں۔ ان متحرک رنگوں والی، لیکن نایاب مکھیوں کی اس نئی نسل کے نمونے شمال مغربی ہمالیہ (اہربل، لاڈی آنگن، گلمرگ) سے جمع کیے گئے تھے۔ صہیب نے کہا کہ نایاب مکھی جو کہ یورپ سے تعلق رکھتی ہے کشمیر میں بہتے پانی کے آس پاس اونچائی پر پائی جاتی ہے۔ کشمیر کی آب و ہوا یورپ سے ملتی جلتی ہے۔ ہم نے رفیع آباد کے شمالی حصے میں بھی اس نسل کا سراغ لگایا۔ اس نوع کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ لاکھوں سال پہلے شمالی علاقے سے تیار ہوئی ہے۔ صہیب نے کہا کہ مکھی سائنس کی دنیا میں ایک ماڈل آرگنزم کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں اس نوع کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس مکھی کا غذائیت سے متعلق سائیکلنگ میں بہت بڑا کردار ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ مکھیوں کی نئی شناخت شدہ نسل وادی کشمیر کے ماحولیاتی نظام کے نازک توازن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پولینیشن، سڑن، یا دیگر ماحولیاتی عمل میں اس کے کردار کو ابھی پوری طرح سے سمجھنا باقی ہے، لیکن محققین ان کے نتائج کے ممکنہ اثرات کے بارے میں پر امید ہیں۔

صہیب نے اس تلاش کے بارے میں اپنے جوش و خروش کا اظہار کیا، ’’یہ دریافت نہ صرف کشمیر بلکہ عالمی سائنسی برادری کے لیے بھی اہم ہے۔ یہ ہمارے مقامی ماحولیاتی نظام میں مسلسل تلاش اور تحفظ کی کوششوں کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ تینوں کشمیر میں مکھیوں کی مختلف اقسام پر بڑے پیمانے پر تحقیق کر رہے ہیں۔صہیب نے کہا کہ وہ معدومیت کا سامنا کرنے والی نسلوں کی تحقیق اور دستاویز کرنے کے لیے کشمیر میں سٹیزن سائنس ورک کے تصور کو مقبول بنانا چاہتے ہیں۔