غزہ جنگ: رفح میں ’محدود‘ آپریشن کی تیاری، اسرائیلی فوج کا ایک لاکھ فلسطینیوں کو انخلا کا حکم

اسرائیلی فوج نے مشرقی رفح کے مختلف علاقوں میں مقیم تقریباً ایک لاکھ فلسطینیوں کو انخلا کا حکم دیا ہے۔ اس اعلان کے بعد رفح میں موجود فلسطینی خاندانوں نے وہاں سے نکلنا شروع کر دیا ہے۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ رفح میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کے منصوبہ کا دائرہ کار ’محدود‘ ہے۔

فی الحال کسی ٹائم فریم کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق تقریباً ایک لاکھ افراد کو متاثر کرنے والے اس انخلا کے عمل پر مرحلہ وار طریقے سے عملدرآمد کروایا جائے گا۔

تاہم ان کے اس کے بیان کے باوجود رفح کے مقامی افراد اور وہاں مقیم 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر فلسطینیوں سہم کر رہ گئے ہیں۔ ان افراد کو اسرائیلی فوج کی جانب سے وسیع تر جارحیت کا خطرہ ہے۔

کئی مہینوں سے اسرائیلی وزایر اعظم بنیامن نتن یاہو اصرار کرتے آئے ہیں کہ جنگ میں کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک رفح میں حماس کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جاتا۔

اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس کے بقیہ ہزاروں جنگجوؤں پر مشتمل چار بٹالین رفح میں چھپے ہوئے ہیں۔

مغربی اور عرب ممالک کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ نے بھی بارہا رفح میں بڑے پیمانے پر زمینی کارروائی کے خلاف خبردار کیا ہے۔ ان کے مطابق ایسی کسی کارروائی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کے درمیان اس معاملے میں کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں رفح میں زمینی کارروائی کے متبادل اور بہتر منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا انخلا کا یہ نیا منصوبہ ایسے کسی متبادل منصوبے کا حصہ ہے یا نہیں۔دوسری جانب کچھ اسرائیلی مغویوں کے خاندانوں کی جانب سے رفح میں زمینی کارروائی سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں ان کے پیاروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

گل ڈک مین کی رشتہ دار 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے دوران ماری گئی تھیں جبکہ ان کے دو کزن یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک کو تو رہا کر دیا گیا مگر دوسرا اب بھی حماس کی قید میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے رفح میں داخل ہونے کے نتیجے میں نہ صرف بے گناہ افراد اور فوجیوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے بلکہ اس سے حماس کی قید میں موجود افراد کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

غزہ کراسنگ پر حماس کے میزائل حملے میں تین اسرائیلی فوجی ہلاک
حماس کی جانب سے غزہ پٹی کے اندر سے راکٹ داغے جانے کے بعد اسرائیل نے کرم شالوم کراسینگ کو بند کر دیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی حکومت نے الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کو حماس کا ’ماؤتھ پیس‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں اس کی نشریات بند کردی ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہا کہ کرم شالوم کراسینگ پر حملے میں تین اسرائیلی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔غزہ میں خوراک اور طبی سامان سمیت انسانی امداد پہنچانے کے چند راستوں میں سے ایک کرم شالوم کراسینگ ہے۔

حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈ کا کہنا ہے کہ اس نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے کرم شالوم کراسینگ پر اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے مطابق جنوبی غزہ میں رفح کراسنگ کے قریب ایک علاقے سے کرم شالوم کراسینگ پر 10 میزائل داغے گئے ہیں۔آئی ڈی ایف کا کہنا کہ یہ میزائل ایک شہری پناہ گاہ سے 350 میٹر کے فاصلے سے فائر کیے گئے تھے۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے جوابی کارروائی میں لانچر اور قریب ہی موجود ایک ملٹری سائٹ کو تباہ کر دیا گیا ہے۔دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مصر میں جاری مذاکرات کا تازہ دور ختم ہو گیا ہے۔

حماس کا کہنا ہے مذاکرات کا دور اتوار کو ختم ہوا اور اب اس کا وفد اب گروپ کی قیادت سے مشاورت کے لیے قطر جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق ثالثی کی کوششوں میں شامل سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز بھی مزید بات چیت کے لیے مصری دارالحکومت سے دوحہ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کی تجویز میں یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے لڑائی میں 40 دن کا وقفہ اور اسرائیلی جیلوں میں قید متعدد فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کی اس نئی تجویز کو ’مثبت روشنی‘ میں دیکھتے ہیں تاہم اب بھی مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا جنگ بندی کا معاہدہ مستقل بنیادوں پر ہوگا یا عارضی۔

گروپ اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ معاہدے میں جنگ کے خاتمے کے لیے حتمی فیصلہ کیا جائے تاہم اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔