مسجد اور خواتین

*ڈاکٹر مفتی محمد عبیداللہ قاسمی (گوپال گنج) اسسٹنٹ پروفیسر دہلی یونیورسٹی*

مذہبِ اسلام میں مسجد میں پاک عورتوں کے داخلے پر اصولی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پاک عورتیں مسجدوں میں داخل ہوسکتی ہیں۔ البتہ اپنے گھروں سے باہر نکل کر مسجد میں جماعت کے ساتھ پنجوقتہ نماز پڑھنا حق نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری اور تکلیف مردوں پر ڈالی گئی ہے اور عورتوں کو اس تکلیف اور ذمہ داری سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود اگر وہ مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا چاہیں تو مذہبِ اسلام میں ممانعت نہیں کی گئی ہے چناچہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن تفلات۔” رواه أحمد وأبو داود ).
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ‘لا تمنعوا النساء أن يخرجن إلى المساجد وبيوتهن خير لهن۔ (رواه أحمد وأبو داود ).

یہ بات شریعتِ اسلامی میں بالکل واضح ہے کہ عورتیں اگر چاہیں تو مسجدوں میں جاکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں۔ البتہ مذہبِ اسلام میں جس طرح انہیں تکلیف اٹھاکر مسجد جانے اور باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے مذہبِ اسلام میں اسی طرح یہ بھی واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ عبادتِ نماز کا ثواب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر انعام انہیں مسجد کی جماعت کی بجائے اپنے گھر میں پڑھنے کی صورت میں زیادہ ملے گا، حتی کہ مسجدِ نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بھی نماز ادا کرنے سے زیادہ ثواب انہیں گھر میں نماز پڑھنے پر ملے گا۔ چنانچہ مذہبِ اسلام میں ارشاد فرمایا گیا:

1. عن أم حميد امرأة أبي حميد الساعدي رضي الله عنهما : ( أنها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله إني أحب الصلاة معك قال : قد علمت أنك تحبين الصلاة معي ، وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك ، وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك ، وصلاتك في دارك خير لك من صلاتك في مسجد قومك ، وصلاتك في مسجد قومك خير لك من صلاتك في مسجدي ، قال : فأمرت فبني لها مسجد في أقصى شيء من بيتها وأظلمه فكانت تصلي فيه حتى لقيت الله عز وجل ) . رواه أحمد ( 26550 ) . وصححه ابن خزيمة في ” صحيحه ” ( 3 / 95 ) وابن حبان ( 5 / 595 ) ، والألباني في ” صحيح الترغيب والترهيب ” ( 1 / 135 ).

2. وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها ) رواه أبو داود ( 570 ) والترمذي ( 1173) . وصححه الشيخ الألباني في ” صحيح الترغيب والترهيب ” ( 1 / 136 )

یعنی گھر میں عورت کی نماز مسجد کی نماز سے بہتر اور زیادہ ثواب والی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کی نماز مردوں پر ضروری قرار دی گئی، (اگر سارے مرد مسجد کی جماعت چھوڑ دیں اور گھر پر پڑھیں تو سب کے سب گنہگار ہونگے) مگر عورتوں کو راحت دی گئی اور اگر کوئی عورت مسجد میں جاکر نماز نہ پڑھے بلکہ گھر پر پڑھے تو کوئی بھی گنہگار نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس ان کا ثواب بڑھ جائے گا۔ گویا کہ جماعت کی نماز مذہبِ اسلام میں مردوں پر لازم کردی گئی ہے اور عورتوں کو اس بارے میں آزاد کردیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ مسجد جاکر جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتی ہیں اور گھر میں بھی پڑھ سکتی ہیں مگر گھر کی نماز پر مسجد کی نماز کے مقابلے میں انہیں ثواب زیادہ ملے گا۔

افسوس ہے کہ مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب نے اپنی لمبی تحریر میں مسجد میں عورتوں کی نماز سے متعلق سکے کا صرف ایک رخ دکھایا ہے اور منع نہ کرنے والی حدیث نقل کی ہے اور دوسرا رخ جو دوسری صحیح حدیثوں میں ہے اسے حذف کردیا ہے۔ اور پھر ایک رخ پر بات لمبی سے لمبی تر کرتے چلے گئے ہیں۔ جب کہ موضوع سے انصاف اسی وقت ہوگا جب اس کے متعلقہ تمام نصوص کو مدِ نظر رکھا جائے۔

خلاصۃ الخلاصہ یہ ہے کہ ہمیں سپریم کورٹ کو بتانے کی ضرورت ہے کہ:

1۔ مسجد میں پنجوقتہ نمازوں کی جماعت مذہبِ اسلام میں حق نہیں بلکہ ذمہ داری، تکلیف اور بوجھ ہے جو مردوں پر ڈالا گیا ہے، اور عورتوں کو اس سے چھٹکارا دے دیا گیا ہے۔

2۔ مذہبِ اسلام جس طرح عورتوں کو مسجد کی نماز سے نہیں روکتا ہے اسی طرح عورتوں کے لئے مسجد کی نماز کی یہ کہکر حوصلہ شکنی بھی کرتا ہے ان کے لئے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے زیادہ ثواب اور فائدے والی اور افضل ہے۔ اور کسی ایک ہی موضوع پر اسلام کی ایک بات کو ماننا مگر دوسری کو مسترد کردینا انصاف، عقل اور مذہبِ اسلام کے خلاف ہے۔

3۔ کورٹ میں عرضی گزار نے عورتوں کے مسجد میں داخلے کی اجازت طلب کرنے کے لئے جو بنیاد بتائی ہے وہ صنفی مساوات ہے اور مساوات کا مطالبہ حقوق میں نافع ہوتا ہے جبکہ burden، تکلیف، ذمہ داری اور بوجھ میں مساوات کا مطالبہ ضرر رسانی کے لئے ہوتا ہے۔ اب اگر مسجد کی باجماعت نماز میں صنفی مساوات برتی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مردوں کو مذہبِ اسلام میں جماعت کی نماز کا پابند کیا گیا ہے اور جماعت کو ترک کرنے پر آخرت میں سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور دنیا میں اس کی وعیدیں سنائی گئی ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی جماعت کی نماز کا پابند بنایا جائے اور جماعت چھوڑنے پر سزا کا مستحق بنا ڈالا جائے اور ترکِ جماعت پر انہیں دنیا میں وعیدیں سنائی جائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صنفی مساوات میں عورتوں کے لئے سراسر ضرر ہے۔ لہٰذا عورتوں کے لئے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت اور صنفی مساوات کا مطالبہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ انہیں پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا مطالبہ ہے، جو واضح طور پر عورت دشمنی پر مبنی ہے، اور در حقیقت یہ عورتوں کو مذہب کی طرف سے ملی بڑی چھوٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ ہے اور ان کے خلاف رچی گئی ایک خطرناک سازش ہے۔ لہٰذا ایسی درخواستیں قابلِ رد ہونی چاہئیں اور کورٹ کا قیمتی وقت خراب کرنے کی وجہ سے ایسے عرضی گزار جوڑے پر جرمانہ لگنا چاہیے۔

Leave a comment