جے این یو حملے کے خلاف پُر امن مارچ پر پولیس کا لاٹھی چارج

نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں نقاب پوش غنڈوں کے حملے کے خلاف دہلی میں جمعرات کے روز احتجاج کرنے والے طلباء کو راشٹرپتی بھون کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کے دوران پولیس نے روک لیا اور بعد میں انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ دریں اثنا، جن پتھ پر ٹریفک روکنے کی کوشش کرنے والے ہجوم کو قابو کرنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ پولیس نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مظاہرین سے امن قائم رکھنے کی اپیل بھی کی۔

طلباء کے راشٹرپتی بھون کی طرف جانے کی کوشش کرنے سے پہلے جے این یو طلباء یونین اور جے این یو اساتذہ ایسوسی ایشن نے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کے عہدیداروں سے ملاقات کی اور وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔

قبل ازیں، ملک کےممتاز سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور اساتذہ نے قومی راجدھانی دار الحکومت نئی دہلی میں جمعرات کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے یو این) میں نقاب پوشوں کے حملے کے خلاف ’شہریوں کا مارچ‘ نکال کر وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو برخاست کرنےکا مطالبہ کیا۔ طلبہ کے خلاف کے گئے حملے کی مخالفت میں شہریوں کے مارچ نے غیرجانبدار عدالتی تفتیش کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری، سی پی آئی ایم کے سابق جنرل سکریٹری پرکاش کرات، سابق راجیہ سبھا رکن برندا کرات، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ، معروف سوشلسٹ رہنما شرد یادو، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اورراجیہ سبھا کے رکن منوج جھا، ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے قومی دار الحکومت کے منڈی ہاؤس سے وزارت فروغ انسانی وسائل کے سامنے تک مارچ کیا۔ اس میں جے این یو کے اساتذہ اور طلبہ سمیت دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) جامعیہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) اور امبیڈکر یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ نے حصہ لیا۔

ریلی میں شرکت کرنے والے طلبہ اورا ساتذہ نے اپنے اپنے ہاتھوں میں تختیاں اور بینر لیے جگدیش کمار کے اس حملے میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا اور مودی حکومت سے انھیں علیٰ الفور برخاست کرنے کا مطالبہ کیا اور نقاب پوش حملہ آوروں کو بلا تاخیر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ۔ مرلی منوہر پرساد سنگھ اور جے این یو ٹیچرس اسوسی ایشن اور جے این یو طلبہ یونین (اسٹوڈنٹس یونین ) کی رہنما وغیرہ بھی شامل تھیں۔

جے این یوایس یو کی صدر آئیشی گھوش، سکریٹری ستیش یادو اور کچھ طلبہ کے وفد نے اعلیٰ تعلیم کے سکریٹری امت کھرے سے ملاقات کرکے اپنے مطالبات رکھے۔

جے این یو میں صبح سے ہی بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا حالانکہ یونیورسٹی کے تمام ایگزٹس گیٹس کو بند کیا گیا تھا تاہم بڑی تعداد میں طلبہ منڈی ہاؤس پہنچے اور’شہریوں کے مارچ‘ میں شامل ہوئے۔ منڈی ہاؤس میں اساتذہ اور طبہ صبح 11:30 بجے سے اکٹھا ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن پولیس نے وہاں دفعہ 144 لگارکھی تھی اور دیر تک مظاہرین کو روکے رکھا۔ دوپہر کے بعد تقریباً ایک بجے مظاہرین نے مارچ نکالنا شروع کیا جسےوزارت ِ فروغ انسانی وسائل کے ہیڈکوارٹر سے تھوڑا پہلے راجیندر پرساد مارگ پر روک دیا گیا۔

یچوری نے کہا کہ جےاین یو کے وائس چانسلر کا استعفیٰ نہیں بلکہ انھیں برخاست کردینا چاہیے کیونکہ انہوں نے تین گھنٹے تک نقاب پوشوں کو کیمپس میں توڑ پھوڑ ، مارپیٹ ،طلبہ اور اساتذہ پر حملہ کرنے دیا۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے پولیس کی موجودگی میں حملہ آور کیمپس سے نکل گئے۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر نے حملے کے ذمہ دار غنڈوں کے خلاف ایف آئی آر تک نہیں کروائی بلکہ جو طلبہ زخمی ہیں انہی کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی گئی۔

اس درمیان تقریباً 20 ملکوں کے 250 سے زیادہ ماہرین تعلیم اور اکیڈمک دنیا کی ہستیوں نے جے این یو کے وائس چانسلر سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ یونیورسٹی کیمپس میں اس طرح کے حملے نہ صرف اکیڈمک آزادی بلکہ جمہوری اقدار پر حملہ ہے اور اس کے لیے وائس چانسلر ذمہ دار ہیں۔ وائس چانسلر نے طلبہ کو تحفظ فراہم نہیں کیا ہے۔

نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر ارجن اَپَّا دُرَئی اور کیمبرج یونیورسٹی کی پریمبدا گوپال کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، کناڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، نیوزی لینڈ جیسے ملکوں کے ماہرین تعلیم نے جے این یو حملے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

جے این یو کے ایک ریسرچر اسٹوڈنٹ نے کہا کہ حکومت اور جے این یو انتظامیہ کی ملی بھگت سے اتوار کو کیمپس سے منظم حملے کو انجام دیا گیا ہے اور جانچ کے نام پرلیپاپوتی کی جارہی ہے۔ پولیس انتظامیہ اس طرح ملی ہوئی ہے کہ حملے کی جگہ پر تفتیشی ٹیم کو نہیں لے جایا جا رہا ہے بلکہ تفتیشی ٹیموں کو ایڈمنسٹریشن بلاک میں گھمایا گیا ہے تاکہ تفتیش کو متاثر کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پوری رات کیمپس میں بڑی تعداد میں پولیس تعینات رہتی ہے اور کیمپس کے اوپر سے ڈرون سے نگرانی رکھی جاتی ہے۔ اس سے طلبہ کے درمیان دہشت کا ماحول ہے۔فیس اضافے کو واپس لینے کےمطالبے کے سلسلے میں دو ماہ سے زیادہ کے وقت سے کیمپس میں طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن بلاک میں مسلسل احتجاج چل رہا ہے لیکن اتوار کے حملےکے بعد سابرمتی ہاسٹل کے باہر دن رات احتجاج جاری ہے۔ حملے کے واقعات سب سے زیادہ سابرمتی ہاسٹل میں ہی پیش آئے تھے۔

ایم رینا نے کہا کہ جے این وی میں حملے کے بعد پہلی بار وائس چانسلر ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے بات چیت کر رہے تھے جس میں ان کا جھوٹ صاف نظر آرہا ہے تھا۔ انہوں نے کہا کہ نقاب پوشوں کے ساتھ وائس چانسلر جگدیش کمار خود حملے کے لیے ذمہ دار ہیں لہٰذا اس لیے انھیں خود اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

معروف ماہر اقتصادیات جَیتی گھوش نے کہا کہ جے این یو میں فیس اضافے کے سلسلے میں چلنے والی تحریک کو ختم کرنے کے لیے وزارتِ فروغ انسانی وسائل نے طلبہ کے مطالبات کو مان لیا تھا لیکن انتظامیہ نے بیچ میں روک دیا۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انتظامیہ کے افراد تشدد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جے این یو میں کس نے حملہ کروایا ہے ، ہر کسی کو معلوم ہے اور محض دہلی پولیس کو اس کی خبر نہیں ہے، اسی باعث مجرموں کی گرفتاری نہیں ہوپارہی ہے۔ جے این یو حملے کے بعد جس طرح سے پورے ملک سے طلبہ اور سماج کے دیگر گروپوں نے یہاں کے طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اسی یکجہتی سے واضح ہے کہ مودی حکومت کی زیادتی نہیں چلنے والی ہے۔

سی پی آئی ایم کے رہنما برنداکرات نے کہا کہ دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے، جے این یو کیمپس میں سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ ہوا ہے۔ اسی لیے تشدد کے لیے ذمہ دار عوام کی اب تک گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ کیمپس میں تشدد کے بعد وہاں وائس چانسلر کو اپنے عہدے پربرقرار رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

سینیئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر ملک کے عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے خلا ف یونیورسٹیوں میں آواز اٹھانے پر اسے دبایا جا رہا ہے۔ حکومت استحصالی ،استیصالی اور ظالم ہو گئی ہے۔
سی پی ٓائی کے رہنما ڈی راجہ نے کہا کہ جے این یو کے وائس چانسلر اپنی ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتے اور انھیں علیٰ الفور عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے۔ طلبہ کا مطالبہ جائز ہے لہٰذا وہ طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے یہاں آئے ہیں۔

یہ ایک سینڈیکیٹیڈ فیڈ ہے ادارہ نے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے. – Source بشکریہ قومی آواز بیورو—-

Leave a comment