تشدد اور بے قابو حالات کو دیکھتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ میں آدھی رات کو ہوئی سماعت

شہریت ترمیمی قانون کو لے کر دہلی میں ہو رہے تشدد نے عوام کی نیند اڑا کر رکھ دی ہے۔ شر پسند افراد لگاتار ماحول خراب کرنے کی کوشش میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی میں مصروف نظر آئے۔ بھجن پورہ، کھجوری اور موج پور وغیرہ علاقوں میں صورت حال پہلے سے ہی بہت کشیدہ تھے، اور مصطفیٰ آباد میں بھی منگل کے روز سماج دشمن عناصر نے خوب ہنگامہ برپا کیا۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ دہلی ہائی کورٹ کو آدھی رات میں اس تعلق سے سماعت کرنی پڑی۔ تشدد میں زخمی ہونے والے لوگوں کے بہتر علاج اور تحفظ کے لیے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر کے گھر یہ سماعت ہوئی جس میں عدالت نے پولس کو ہدایت دی کہ وہ مصطفیٰ آباد کے ایک اسپتال سے ایمبولنس کو محفوظ راستہ دے اور مریضوں کو سرکاری اسپتال میں منتقل کرائے۔

دہلی ہائی کورٹ میں نصف شب کو ہوئی اس سماعت کے بعد کہا گیا ہے کہ آج دوپہر کو اس سلسلے میں پھر سماعت ہوگی۔ پولس کو تشدد اور زخمی افراد کے علاج سے متعلق تفصیل بھی بتانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں جب دوپہر میں سماعت ہوگی تو پولس کو اسٹیٹس رپورٹ سونپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قابل غور ہے کہ مصطفیٰ آباد کے ایک اسپتال میں کئی زخمی افراد علاج کرا رہے ہیں لیکن انھیں بہتر علاج کی ضرورتی ہے۔ اسی لیے عدالت نے انھیں سرکاری اسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس مرلی دھر نے رات میں ہی اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور ڈی سی پی سے بات چیت کی اور اسٹیٹس رپورٹ مانگی۔ جج مرلی دھر نے فون پر ہی ڈی سی پی کو ہدایت دی کہ وہ زخمیوں کو قریب کے اسپتال میں داخل کرائیں اور ان کے تحفظ کا خاص خیال رکھیں۔

واضح رہے کہ شمال مشرقی دہلی میں منگل کو نئے سرے سے تشدد پیدا ہو گیا جس میں مہلوکین کی تعداد بڑھ کر 13 ہو گئی تھی۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق یہ تعداد بڑھ کر اب 18 ہو گئی ہے۔ منگل کے روز پولس بھیڑ پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن سماج دشمن عناصر گلیوں میں گھوم گھوم کر توڑ پھوڑ اور آگ زنی کرتے رہے۔ بھیڑ میں شامل لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کر رہے تھے اور دکانوں میں آگ لگا رہے تھے۔ فسادیوں نے گکل پوری میں دو دمکل گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ موج پور اور دیگر مقامات پر بدمعاشوں نے اپنے راستے میں آنے والی پھل کی گاڑیوں، رکشہ اور دیگر چیزوں کو بھی آگ لگا دی۔

یہ ایک سینڈیکیٹیڈ فیڈ ہے ادارہ نے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے. – بشکریہ قومی آواز بیورو

Leave a comment