ایک فکری تحریربلخصوص علماءوائمہ حضرات ضرورپڑھیں

مولوی چین سے کیوں ہے؟

آپ مانیں یا نہ مانیں مگر آج ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہی سوچ سوچ کر بیچین وپریشان رہا کرتے ہیں کہ مولوی چین سے کیوں ہے؟
مولوی خوشحال زندگی کیونکر گزار رہا ہے؟
مولوی کے بدن پر قیمتی لباس کیوں ہے؟
مولوی پریشان کیوں نہیں ہے؟

اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی پست ذہنیت رکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد آپ کو خود مولویوں کی مل جائے گی۔نظر اٹھا کر دیکھ لیں کسی بھی میدان میں ایک مولوی قطعاً یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی دوسرا مولوی اس کی ہمسری کرے۔

بغض و حسد جیسی مذموم خصلتیں آج اس طبقے میں عام ہیں. ہر شخص بس اپنے کام کو کام سمجھ رہا ہے اور اپنی ہی محدود دنیا میں مگن ہے. ایک دوسرے کی تذلیل کرنا، کیچڑ اچھالنا، طعن و تشنیع کے تیر چلانا، غیبت سے زبانوں کو آلودہ کرنا یہ تمام چیزیں آج ان لوگوں کا شیوہ بن چکی ہیں جن کو زبان کے معاملے میں سب سے زیادہ محتاط ہونا چاہیے تھا، جن کے دل سب سے زیادہ صاف ستھرے ہونے چاہیے تھے۔

ذرا اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیجیے، کتنے بیچارے علماء آپ کو ایسے ملیں گے جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، مختلف مسائل سے دوچار ہیں، بستر پر برسوں سے بیمار پڑے ہیں، کتنے بیچارے اپنی جوان بیٹیوں کی شادی کی فکر میں گھل رہے ہیں. ان میں سے کئیوں نے برسہا برس تک امت کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ہے، دعوت و تبلیغ کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں مگر آج وہی وارثینِ انبیاء اور خادمانِ قوم و ملت جب مختلف پریشانیوں اور مسائل میں مبتلا ہیں تو نہ کوئی ان کا پرسان حال ہے، نہ کوئی ان کے حق میں دو بول بولنے والا ہے. ان مفلوک الحال علماء کی تو کسی کو فکر نہیں البتہ کوئی عالم دین اگر سکون کی زندگی گزار رہا ہے، اس کے بال بچے آرام سے رہ رہے ہیں تو پھر مت پوچھیے کہ لوگوں کو اس کی کتنی فکر ہے . عوام تو عوام خود کتنے مولوی آپ کو ایسے مل جائیں گے جن کے پیٹ میں یہ سوچ سوچ کر درد ہوتا رہتا ہے کہ آخر یہ مولوی اتنے چین سے کیوں ہے.

گستاخی معاف صاحبو! لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولوی ہمیں تبھی اچھا لگتا ہے جب یہ کشکول پھیلائے ہمارے دروازے پر چندے کی بھیک مانگ رہا ہو، ہمارے دست نگر ہو، ہمارا محتاج ہو. مولوی جب تک بحیثیت مولوی سماج میں جیتا ہے یہ سماج اس کے استحصال کا کوئی موقع نہیں چوکتا. مولوی کا فارغ البال اور خوش حال ہونا سماج کے لیے خوش آئند نہیں سمجھا جاتا. یہ مخلوق تو خدائی مخلوق ہے، اس کو اس کے کاموں کا بس اتنا ہی معاوضہ ملنا چاہیے کہ جتنے میں اس کی دال روٹی چل جائے. جہاں تک دیگر ضروریات اور شوق کی بات ہے تو چونکہ یہ مخلوق منبر و محراب سے جڑی رہتی ہے تو زمانے بھر کی برکتیں تو ویسے بھی ان کے گھروں میں برستی رہتی ہیں۔

تصویر کا ایک رخ یہ ہے اور دوسری طرف خود علماء کی جماعت کا حال یہ ہے کہ حسد ورقابت کا جذبہ اس طبقے کے لیے جزو لا ینفک بن چکا ہے. کوئی صاحب لکھنے میں ایکسپرٹ ہیں تو ان کی ساری انرجی دوسروں کی تذلیل و تنقیص پر ہی خرچ ہو رہی ہے. کوئی جناب مدرس ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ اپنے موقر ادارے کی چاردیواری کے اندر رہ کر جو کام وہ کر رہے ہیں بس وہی دین کی خدمت ہے اور باقی سارے لوگ مفت میں پلنگ توڑ رہے ہیں۔
جو علماء تقریر کے میدان میں نہیں ہیں انہیں خطباء اور مقررین سے الرجی ہے، انہیں تمام مقررین پیشے ور اور حریص نظر آتے ہیں.
ائے بندگان خدا !!!!!
تقریر بھی ایک فن ہے، ایک میدان ہے، جو لوگ اس میدان کو سنبھالے ہوئے ہیں انہیں اپنا کام کرنے دیجئے آپ اپنا کام کیجیے، سب کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار ہیں۔
یہ بات کہاں تک قرین انصاف ہے کہ ایک مقرر اہل و عیال سے دور، سفر کی صعوبتیں اٹھا کر دور دراز گاؤں گاؤں قریہ قریہ جا کر کتاب و سنت کی دعوت کو عام کرے، اپنے جسم اور ذہن کو تھکائے، رات و دن ایک کرے، لوگوں میں پائی جانے والی برائیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کی کوشش کرے اور بدلے میں عوام تحفتاً اسے کچھ نذرانے دے تو اس کی تمام تر قربانیوں اور کوششوں پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا جائے کہ وہ پیشہ ور مقرر ہے اور اس کے اندر اخلاص نہیں ہے. آخر یہ اخلاص کیا چیز ہے اور کہاں ملتی ہے؟
کیا اپنا گھر مکان، کھیت کھلیان بیچ کر دعوت کا کام کیا جائے تب کہا جائے گا کہ یہ اخلاص والی دعوت ہے؟
کیا ایک انسان اپنے بال بچوں کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر ان کے حقوق سے بے پروا ہو کر دعوت کے میدان میں نکل پڑے تب یہ مانا جائے گا کہ ہاں یہ داعی مخلص ہے، یہ مقرر پیشہ ور نہیں ہے۔

حیرت کا مقام اور افسوس کی جا تو یہ ہے کہ خطباء اور مقررین پر پیشہ ور کا ٹھپہ لگانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پیٹ کی دکانیں مشاریع کی رقم میں خرد برد کر کے آباد ہوتی ہیں، جن کی شان و شوکت بھری زندگی کا دار و مدار مسج

دوں، مدرسوں، یتیموں، کنووں اور ٹیوب ویل کے نام پر دیے جانے والے پیسوں پر ہوتا ہے. خیانت اور بے ایمانی کے تمام تر حربے آزمانے کے بعد اگر ایک شخص رات و دن محنت کرنے والے علماء اور مقررین پر انگلی اٹھاتا ہے تو بھلا اس سے زیادہ بے حیائی اور ڈھٹائی کیا ہو سکتی ہے۔

حضرات! میں تو علمی دنیا میں طفل مکتب کی حیثیت رکھتا ہوں، الحمد للہ چھوٹی سی عمر میں دنیا کے بہت سارے رنگ دیکھے ہیں، میرا مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ ہم دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے عادی ہو چکے ہیں، ہماری طاقتیں اور صلاحیتیں صرف اور صرف منفی اور سلبی رخ پر صرف ہو رہی ہیں. ایک دوسرے کی کاوشوں کی قدر دانی کا جذبہ آج علماء کی جماعت سے باکل مفقود ہو چکا ہے، آج ایک نامور خطیب ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ خطابت کے میدان میں کوئی اور اس کے برابر کھڑا ہو، ایک کامیاب مدرس بالکل نہیں چاہتا کہ وہ اپنے طلبہ پر اپنا علم انڈیل دے اور انہیں بھی اپنے جیسا باکمال بنا دے. آج نوبت یہ ہے کہ شاگرد کسی میدان میں استاد سے آگے نکل جائے تو خود استاد کے قلب و جگر میں اس کے خلاف حسد کی آگ بھڑکنے لگتی ہے اور وہ اپنے شاگرد کو زک پہنچانے کے موقعے ڈھونڈنے لگتا ہے۔

اللہ کے واسطے اپنی صلاحیتوں کو مثبت رخ دیجیے. کرنے کے بہت سارے کام پڑے ہیں۔
امت مسلمہ کو پہلے ہی بہت سارے مسائل درپیش ہیں، کھینچا تانی اور رسہ کشی کے یہ سلسلے ختم کیجیے۔ حکومتیں ہوں کہ عوام مولوی سب کے راڈار پر ہیں۔
اپنی قیمت پہچانیے، اپنی پہچان کو اپنے ہی ہاتھوں ختم مت کیجیے۔
دوسروں کو بد خلقی کا طعنہ دینے سے پہلے اپنے اخلاق کا بھی جائزہ لے لیجیے۔
کسی کا بھلا نہیں کر سکتے، آگے نہیں بڑھا سکتے تو دھکا بھی مت دیجیے. جو لوگ کام کر رہے ہیں انہیں اپنے اپنے میدان میں کام کرنے دیجیے اور آپ اپنے مرغوب میدان پر اپنی توجہ مرکوز رکھیے. کسی میدان میں آپ کو مخلصین کی کمی نظر آتی ہے تو آپ سراپا اخلاص بن کر اس میدان میں اتریں ۔ع
ساحل پر بیٹھ کر طوفان کی تیزی کا شکوہ کرنا ٹھیک نہیں.
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔
یا اللہ رب العزت ہمارے میں خوب اتحادواتفاق عطافرمائے
آمین یارب العالمین

غازی عمیراحراری ندوی۔
جوائنٹ سکریٹری آل انڈیا مجلس احرار اسلام۔