ہنگولی میں سماج وادی پارٹی کے کارگزار صدر سید معین کاخطاب
ہنگولی: 28ستمبر ( راست) ملک کے مسلمانوں کو جذبات نہیں جذبہ سے کام لینا چاہئے۔ جذبات کو بھڑکانے والی نام نہاد قیادت نے ملک میں ہجومی تشدد کو فروغ دیا ہے اور اس قیادت نے ملک کے دو بڑے طبقات میں نفرت اور دشمنی کی ناقابل عبور خلیج کھود دی ہے۔ یہ ساری مذموم حرکات اُس قیادت کی جانب سے کی گئی جو دکن سے اُبھری۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار سماج وادی پارٹی کے ریاستی کارگذار صدر سید معین نے ہنگولی میں عوام الناس کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ سید معین خلاف توقع ہنگولی میں جم کر برسے اور دکن کی سیاسی جماعت پر ٹوٹ پڑے۔ سید معین نے اپنے بیباکانہ خطاب کی گھن گرج سے دکن کی سیاسی جماعت کو سربازار برہنہ کردیا۔ ریاست مہاراشٹر کے کونے کونے میں اپنی برجستہ و برمحل تقاریر سے لاکھوں عوام کے دلوں میں جگہ بنانے والے جناب سید معین گزشتہ روز ہنگولی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ بس اب بہت ہوگیا۔ اس تفرقہ پسند قیادت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے۔ اب مسلمانوں نے ان کی دوغلی اور بے رُخی مفاد پر مبنی سیاست کو پرکھ لیا ہے۔ حیدرآباد کے اویسی بھائیوں کا نام لئے بغیر جناب سید معین نے کہا کہ ایسے افراد جن کے قول و فعل میں تضاد ہے مسلمانوں کا کیا بھلا کرسکتے ہیں۔ ایک طرف تو اس بات کا ادعا کہ ” گلے پر چھری رکھ دے تو بھارت ماتا کی جئے “ کے نعرے نہیں لگاﺅں گا اور دوسری طرف ان کے حاشیہ برداروں کی جانب سے مورتی پنڈال میں مشرکانہ عقیدت سے لبریز پُرجوش نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے سید معین نے کہا کہ یہ وہی مارے آستیں ہیں جنہوں نے ان فسطائیت پسندوں کی مدد کی جو گزشتہ 70 برسوں سے اپنے مذموم و مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ دکن کی جماعت سے اپنی وابستگی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے سید معین نے کہا کہ سیکولر جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کے بیش قیمت ووٹوں کا استحصال کیا گیا تھا۔ ہم کانگریس کے مصنوعی سیکولرازم کے ڈسے ہوئے تھے۔ مسلمان ہر محاذ پر پسماندہ تھے۔ ہم ڈوب رہے تھے، ہمیں تنکوں کا سہارا درکار تھا۔ ہم ملی قیادت کو ترسے ہوئے تھے، ایسے دل شکستہ حالات میں ہم ” ان کی لفاظی کے گرداب میں آگئے۔ ہم ان کی لچھے دار تقاریر کے سحر کا شکار ہوگئے۔ سید معین نے بڑے ہی پُرتاسف لہجہ میں کہا کہ انہوں نے بابری مسجد پر لب کشائی کی۔ ہجومی تشد د پر ٹسوے بہائے۔ ہم معصومیت میں ان پر اعتماد کر بیٹھے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ سب ڈرامہ بازی ہے۔ ہم سادہ لوحی کا شکار ہوگئے اور نادانستگی میں ان کے آلہ¿ کار بن گئے۔ بات اُس وقت سمجھ میں آئی جب ان کی لفاظی کا خمیازہ دو طبقوں میں نفرت کو فروغ کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو دکن کی اس قیادت کی جانب سے نیست و نابود کیا گیا اور ہندو مسلم ان کی تفرقہ پسند ذہنیت کا شکار ہوئے۔ اپنے خطاب میں اعتدال پیدا کرتے ہوئے سید معین نے کہا کہ اگر ملک میں مسلمانوں کو ترقی سے ہمکنار کرنا ہے تو جذبات سے نہیں جذبہ سے کام کرنا ہے۔ حق گوئی کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔ اس کی مثال جناب ابوعاصم اعظمی ہیں۔ خاندانی رئیس، نازوں کے پلے ہوئے ابو عاصم اعظمی نے اپنا سارا عیش تیاگ کر جیل کی صعوبتیں برداشت کیں تو ملت کی خاطر ،دوڑ کر آنے کے زبانی دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدامات کئے۔ لاتعداد اسیران زنداں مسلم نوجوانوں کو جیل سے باہر نکالا۔ وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ کارگزار صدر سماج وادی پارٹی ریاست مہاراشٹر سید معین نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ آج بفضل ربی مجھے ابوعاصم اعظمی کی سرپرستی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ لہٰذا میں اس کو کسی صورت میں گنوانا پسند نہیں کروں گا۔ ملک میں بھائی چارہ کے لئے، یکجہتی کے لئے، ملک و قوم کی بہبود کے لئے، ملت کی پسماندگی کے سدباب کے لئے، انتخابی مفادات سے بالاتر ہوکر آپ کا یہ بھائی ہمیشہ خدمت میں مصروف رہے گا۔ آپ کے دُکھ درد میں شریک رہے گا۔ میری شناخت وعدہ کرنا نہیں بلکہ عملی اقدامات ہیں۔ آپ تمام کی تائید سے اور اللہ و رسولﷺ کی نصرت کے ساتھ مجھے آپ ہر وقت آپ کی خدمت میں مصروف پائیں گے۔ ہنگولی کے غیور مسلمانوں سے سید معین نے اپیل کی وہ اس بات کو جان لیں کہ مومن ایک سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا۔ انہوں نے ہنگولی کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ شاطروں کے شر سے محفوظ رہئے، لفاظی کے گرداب سے نکلئے۔ جلسہ میں کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے اور وقفہ وقفہ سے سید معین زندہ باد ، ابو عاصم اعظمی زندہ باد کے نعرے لگتے رہے۔ ممبئی سے آئے ہوئے ذوالفقار اعظمی، راشد صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ سید معین کے اس خطاب سے ہنگولی ضلع و تعلقہ جات میں سماج وادی پارٹی کی جڑیں مستحکم ہوئیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے سماج وادی پارٹی سے وابستگی اختیار کی۔ قبل ازیں ہنگولی پہنچنے پر سید معین کا مقامی لوگوں نے والہانہ خیر مقدم کیا۔ اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے، ان کا خطاب سننے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑے۔