عرشی قریشی مقدمہ ‘ سرکاری گواہ نے استغاثہ کی قلعی کھول دی

ممبئی ۔6 اکتوبر ( پریس ریلےز )داعش سے تعلق اور اس کے لئے رےکروٹنگ کے الزام مےں گرفتار عرشی قرےشی کے مقدمہ کی سماعت ممبئی کی خصوصی عدالت میں جا ری ہے آج این آئی اے کی جا نب سے عدالت میں ۸ ویںنمبر کی گواہ اشفاق کی والدہ عائشہ پیش کی گئی جس نے پولس کے جانب سے اس معاملہ میں بیان قلمبند کئے جانے سے انکار کر تے ہوئے استغاثہ کے دعووں کی قلعی کھول دی اور کہا کہ عرشی قریشی کے تعلق سے پولےس نے نہ تو مجھ سے کوئی بیان لےا تھا اور نہ ہی میرے بیٹے کے ور غلانے میں عرشی قریشی کا کوئی رول تھا۔اس بات کی اطلاع آج ےہاں اس مقدمہ کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظےم جمعیةعلماءمہا راشٹر کے لےگل سکریٹری سینر کرےمنل لائر ایڈوکےٹ پٹھان تہور خان نے دی ہے۔ مزید تفصیلات دیتے ہوئے ایڈوکےٹ پٹھان تہور خان نے بتایا کہ آج استغاثہ کی جا نب سے پیش کر دہ گواہ نے استغاثہ کے دعوﺅں کو بے نقاب کر دیا ،پولےس کا کہنا ہے کہ گواہ نے ہندی زبان میں اپنی گواہی درج کرائی ہے جب حقیقت یہ ہے کہ گواہ کےرلا کی رہائشی ہے جو ہندی زبان سے بالکل نا بلد ہے اس کاثبوت یہ ہے کہ آج یہاں عدالت میں عائشہ نے ملےالم زبان میں گواہی دی ، جس کا انگلش ترجمہ عدالت کی جانب سے مقر ر کردہ انوجا میڈم کر رہی تھی ،گواہ نے بھری عدالت کے رو برو بیان دیا کہ اس معاملہ میں نہ تو میں نے پولےس کو کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی پولیس نے میرا کوئی بیان در ج کےا ہے ۔الغرض کےس کی سماعت اطمینان بخش اور منصفانہ طریقے پر جا ری ہے۔ واضح رہے کہ آئی آر ایف کے عرشی قریشی جسے پولےس نے ۶۱۰۲ ءمیں گرفتار کےا تھا اور اس پر انتہائی سنگین قسم کے الزا مات عائدکےا تھا جس کی وجہ سے وہ گذشتہ تقریبا تین سالوں سے قید و بند کی زندگی جھےل رہا ہے،ابتداءسے ہی عرشی قریشی کا مقدمہ جمعیة علماءمہا راشٹردیکھ رہی ہے اور کےرلا میں درج کےس سے اسکی ضمانت بھی کرا چکی ہے البتہ ممبئی میں درج کےس کی سماعت جاری ہے جو گذشتہ کئی مہینوں سے التواءکا شکار تھا ، جمعیة علماءمہا راشٹر کی لےگل ٹیم کی مستعدی اور کاوشوں کے باعث گذشتہ ےکم ستمبر۸۱۰۲ءسے اس مقدمہ کی سماعت برق رفتاری سے شروع ہو چکی ہے آج ۸ ویں نمبر کی گواہ کی گواہی اور جرح مکمل ہو چکی ہے ،جس سے یہ امید پےدا ہوگئی ہے کہ ےہ مقدمہ ۲ مہےنے کے اندر مکمل ہو جائے گی۔ اس موقع پر جمعیة علماءمہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی نے کہا یہ کافی نازک اور سنگین معاملہ ہے جو نہ صرف مہا راشٹر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کاروائی کو لےکر بے چینی پائی جا رہی ہے ۔ہمیں اللہ کی ذات پر پورا یقین ہے کہ ہماری لےگل ٹےم کی دن رات محنت اورکوششیں رنگ لائیں گی اور انشاءاللہ بے قصور کو انصاف ضرور ملے گا ۔ عدالت میںاس مقدمہ کی پیروی جمعیة علماءمہا راشٹر کیجا نب سے سےنر کریمنل لائر ایڈوکےٹ تہور خان پٹھان ،ایڈوکےٹ عشرت علی خان ،ایڈوکےٹ فیضان قریشی کر رہے ہےں ۔
انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے سامنے
پکوڑ ے والے نے سرینڈر کئے 60 لاکھ روپے
لدھیانہ ، 6 اکتوبر.(پی ایس آئی)وزیر اعظم نریندر مودی نے جب روزگار کو لے کر پوچھے گئے سوال کے دوران پکوڑے بیچنے کا مثال دی تو اپوزیشن نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ تاہم، تب شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ ایک پکوڑےوالے پر انکم ٹیکس کے چھاپے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ پنجاب کے لدھیانہ شہر میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جمعہ کو انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے سامنے پننا سنگھ ‘پکوڑےوالے’ نے 60 لاکھ روپے سرینڈر کئے۔ ایک دن پہلے ہی آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نے گل روڈ اور ماڈل ٹاو¿ن میں واقع ان دو ابلاغ پر دن بھر سروے کیا تھا۔ انکم ٹیکس محکمہ کو پختہ جانکاری ملی تھی کہ پکوڑے کی دکان کے مالک ٹیکس بچانے کے لئے کاغذ پر انکم کم دکھا رہے ہیں۔ اسی معلومات کے بعد اہم انکم ٹیکس کمشنر ڈی ایس چودھری کی قیادت میں انکم ٹیکس محکمہ کی ایک ٹیم نے دونوں دکانوں کے بہی-کھاتے کی جانچ پڑتال کی۔ ساتھ ہی محکمہ نے دکان کے روزانہ ہونے والی اوسط آمدنی کی معلومات کے لئے ایک افسر کو جمعرات کو دن بھر دکان میں ہو رہی فروخت پر نظر رکھنے کے لئے لگایا گیا۔ اس کے بعد ابلاغ کی سالانہ متوقع ٹیکس لائبلٹی کا حساب آئی ٹی محکمہ نے لگایا۔ ساتھ ہی ان کی طرف سے ادا کیے گئے ٹیکس سے سالانہ متوقع ٹیکس لائبلٹی کا حساب کیا گیا۔ اس پورے معاملے پر انکم ٹیکس محکمہ نے کوئی بھی رائے دینے سے انکار کر دیا ہے، لیکن پکوڑے کی دکان کے مالک دیو راج نے انکم ٹیکس محکمہ کے پاس 60 لاکھ روپے کی غیر اعلانیہ آمدنی سرینڈر کی تصدیق کی ہے۔ غور طلب ہے کہ سال 1952 میں پننا سنگھ نام کے شخص نے گل روڈ میں اس پکوڑے کی دکان قائم کی تھی۔ چند سالوں میں پننا سنگھ کی دکان پنجاب اور ارد گرد کی ریاستوں میں اپنے پنیر پکوڑے اور دہی بھللے کی وجہ سے مشہور ہو گئی تھی۔ پننا سنگھ پکوڑےوالے گاہکوں میں بڑے سیاستدان، پولیس افسر، نوکر شاہ، بزنسمےن وغیرہ بھی شامل ہیں۔

Leave a comment