یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر، یہ وہ سحر تو نہیں…

ظفر آغا

آج ہندوستان جو یوم آزادی منا رہا ہے یہ وہ یوم نہیں جس کا جشن اس ملک نے سنہ 1947 یا پچھلے 73 سالوں میں منایا تھا۔ کیونکہ آج کا ہندوستان وہ ہندوستان نہیں جس کی آرزو اور تمنا ہماری جنگ آزادی کی نسل نے کی تھی۔ نہ ہی یہ وہ ہندوستان ہے جس کے معمار گاندھی، نہرو اور آزاد تھے۔ یہ ہندوستان وہ ہندوستان بھی نہیں جس کے قیام کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کی قیادت نے اس ملک کو ایک جمہوری اور سیکولر نظام کا آئین دیا تھا۔ وہ ہندوستان جمہوری ہندوستان تھا۔ وہ ہندوستان اس ملک کی صدیوں پرانی گنگا-جمنی تہذیب میں رنگا رنگ ہندوستان تھا۔ اس ہندوستان میں ہر چھوٹا بڑا، ہر مذہب والا، ہر خطے اور علاقے والا ہندوستانی برابر تھا۔ اس ہندوستان میں ہر ہندوستانی واقعی آزاد تھا اور کھلی سیاسی فضا میں اپنے جمہوری اختیار کے اندر وزیر اعظم سے لے کر ہر کسی کی نکتہ چینی کا اختیار رکھتا تھا۔

لیکن وہ ہندوستان، میرے سپنوں کا جہاں اب کہاں رہا۔ کیونکہ آج ہم بقول وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘جدید ہندوستان’ میں جی رہے ہیں۔ وہ ہندوستان جو اس آر ایس ایس کے خوابوں کا ہندوستان ہے جس نے جنگ آزادی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ جنگ آزادی تو جانے دیجیے اس آر ایس ایس نے ہمارے ترنگے جھنڈے کو ہی تسلیم نہیں کیا۔ سنہ 1929 میں یہ ترنگا جھنڈا تیار ہوا، سنہ 1930 کی 26 جنوری میں کانگریس نے اس جھنڈے کو لہرایا اور انگریزوں سے ‘پوری آزادی’ کی مانگ رکھی۔ اس وقت آر ایس ایس کے سربراہ سواکر نے کہا کہ "ہندوستان ایک روز بھگوا جھنڈے کے آگے سر خم کرے گا۔” آر ایس ایس اب تک ترنگے کے آگے نہیں بلکہ اسی بھگوا جھنڈے کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں جب آئین تیار ہوا تو اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ گرو گولوالکر نے ہندوستانی آئین کا مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ "یہ کوئی آئین ہے، اس میں ‘مغربی ملکوں’ سے اٹھا کر اس کو آئین کا نام دیا گیا ہے۔” ان کو یہ اعتراض تھا کہ ہمارے آئین میں ‘منو اسمرتی’ کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ کون منو اسمرتی! وہی منو اسمرتی جو کہتی ہے کہ اگر کسی دلت یا پچھڑے کے کان میں ویدوں کی آواز چلی جائے تو اس کے کانوں میں سیسا پلا دو۔ جی ہاں، آر ایس ایس کو ہندوستان نہیں ‘آریا ورت’ چاہیے جس میں صرف اعلیٰ ذاتوں کے حقوق کے سوا کسی اور کے حقوق ہوں ہی نہیں۔