ذوالقرنین احمد 9096331543 ایک مسلمان کی دل میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس قدر اسکے گوشے گوشے میں اور نس نس میں پیوست ہوتی ہے کہ کفار و مشرکین اپنے ظلم و جبر سے ایمان والوں کے جسم سے جان نکال سکتے ہیں۔ لیکن انکے دلوں سے ایمان نہیں چھین سکتے ہیں۔ یہی تو وہ جذبہ ہے اور ایمانی قوت ہے جس نے ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرود میں ڈلواتے وقت بھی کفار کے سامنے جھکنا پسند نہیں کیا۔ یہی وہ ایمان کی حلاوت ہے جس نے حضرت آسیہ کو اسلام کیلے اول شہادت کے درجہ سے سرفراز کیا۔ یہی وہ ایمان ہے۔ جس نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے لشکر سمیت دریا میں گھوڑے دوڑا دیے۔ یہی ایمان ہے جس نے یوسف علیہ السلام کو جیل سے نکال کر مصر کی بادشاہت عطا کی۔ یہی ایمان ہے جس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو تاقیامت تک امت مسلمہ کیلے زندہ جاوید کر دیا۔ یہی ایمان ہے جس نے حضرت ایوب علیہ السلام کو صبر ایوب کے لقب سے نوازا، یہی ایمان ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زریعے مکہ کی سنگ لاخ وادیوں اور بنجر علاقے میں اللہ اکبر کی سدا بلند کرنے کیلے کہا اور اس آواز کو پوری دنیا میں پہنچنا دیا۔ یہی وہ کلمہ شہادت کی طاقت ہے جس کی دعوت کو ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے سامنے پیش کی تھی۔ اور ایک مختصر عرصے میں سوا لاکھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کو اپنا گرویدہ بنا دیا۔ ملک آج شخصی اور مخصوص جماعت کےمفادات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ ملکی مفادات کو بلائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ قانون اور جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہے۔ کھلے عام حکمران جماعت کے افراد زہر اگلتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات اور پلاننگ کے زریعے ماب لنچنگ کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا جارہا ہے۔ کبھی گو کشی کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کے یا چوری کا نام پر۔ مسلمانوں کی جماعتوں تنظیموں کے رہنماؤں اور قیادت کو چاہیے کہ وہ اب نیا لائحہ عمل تیار کریں 20 سے 25 سالوں پر منحصر ایک طویل مدتی پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو قیادت چلتی آرہی ہے۔ وہ اب بوڑھی ہوچکی ہے۔ یا پھر ختم ہونے والی ہے۔ اور وہ بھی بہت حد تک محدود ہے۔ جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ نئی قیادت کو تیار کرنے کیلے کوشش کرنی چاہئے اگر قیادت ختم ہوگئی تو بھر مسلمان مستقبل میں کسے اپنا قائد تسلیم کرے گے۔ یا 70 سالوں سے کانگریس کی غلامی میں چلے آرہی خستہ حال قوم پھر ایک غلامی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی۔ آج بھی حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن تمام ملی تنظیموں اور جماعتوں کو اپنی اختلافات اور اندرونی نفرتوں کو مٹا کر ایک پلیٹ فارم پر آنا بے حد ضروری ہے۔ ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ ملک کے سسٹم پر ہمارے قوم کے 40 سے 60 فیصد افراد کو پہنچایا دیا جائے۔ تاکہ یہ ملک کے فرقہ پرست عناصر ہمارے بغیر ملک کی ترقی و سلامتی کو محض ایک خواب سمجھنے لگ جائے۔ ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلانا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے میری تمام ملی تنظیموں جماعتوں کی قیادت سے ادابً گزارش ہے کہ مجھ ناچیز کی اس بات پر غور فرمائیں اور مستقبل کیلے طویل مدتی لائحہ عمل تیار کریں۔ جس میں شریعتِ اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ تمام میدانوں کو سر فہرست رکھا جائے۔ ہم ایمانی قوت کے ساتھ ہر میدان میں کامیابی کے پرچم گاڑ سکتے ہیں۔ تاریخ جس کی گواہ ہے۔ |