پھر بھی ہمارا دعویٰ کہ ہم حق پر ہیں!!!


اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
جولائی کے آخری ہفتے میں دو مختلف خبروں سے سامنا ہوا۔ دونوں بظاہر مختلف ہوتے ہوئے بھی آپس میں کئی اعتبار سے جڑے ہوئے لگے۔ پہلی خبر تو یہ تھی کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس،طلاق ثلاثہ بل کی صدر ہند نے تو ثیق کردی اور اب یہ بل ایک قانون بن چکا ہے۔ یار لوگ اس پر کتنا بھی کہہ لیں، لکھ لیں، واویلا مچا لیں کہ یہ بل شریعت میں مداخلت ہے جسے ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ، اب یہ بل ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اس بل کو منظر شہود پر لانے کا سہرا بھلے سے موجودہ حکومت کوحاصل ہو لیکن اس کے لئے گل و بوٹے ہم نے ہی فراہم کئے ہیں۔ اپنی مسلک کی حفاظت کو مقدم کر تے ہوئے جب ہم نے قرآن و سنت کو پیٹ پیچھے کر دیا، اللہ کے سامنے جوابدہی کے خوف سے زیادہ جب ہمیں اپنی مسلکی پہچان اور لوگوں میں اس حوالے سے ہمارا موقوف عزیز ہوگیا تو پھر جو ہونا تھا وہ ہوکر رہا۔ اس سے زیادہ ذلت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ غیر ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق اپنے انداز میں یاد دلائیں اور ہم اُسے نوشتہ ءِ تقدیر سمجھ کر قبول کر لیں۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے قائدین ابھی بھی اپنے مسلکی موقوف پر ہی ڈٹے نظر آرہے ہیں۔ اس بل کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نے سے پہلے اگر ہم نے اپنا لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں نہیں بنایا بلکہ اپنی مسلکی نقطہ ءِ نظر کو ہی آگے رکھنے کی کوشش کی تو یہ عمل بھی ایک کارِ لایعنی، وقت اور مال کا زیاں ہی ہوگا۔ 
دوسری خبر ایک ویڈیو کی شکل میں وائرل ہوئی جس میں فرزندگانِ توحید ایک مسجد میں منبر و محراب کے پاس مصلے کے اوپر آپس میں گھتم گھتا نظر آئے۔ پولیس کی موجودگی اور بیچ بچاؤ کے درمیان بھی یہ جس انداز سے ایک دوسرے پر حملہ وار ہورہے تھے اس سے تو کہیں بھی یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ لوگ ایک ہی مسلک اور ایک ہی مکتبہ ءِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ وطن عزیز میں حالات کیا کروٹ لے رہے ہیں اس سے بے نیاز اپنے میں مگن، فکر ہے تو صرف اپنی ذات کی، اپنے مسلک اپنے مکتبہ ءِ فکر کی، اپنے نام نہاد اکابرین و قائدین کے لئے مرمٹنا آسان لیکن اللہ کے لئے اللہ کے بندوں کے لئے ہمارے کیا فرائض ہیں ہمیں اُس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کوئی روز ایسا نہیں گذرتا جس میں ہم اپنے ہی کسی ہم مذہب کو کافر، لادین اور گمراہ کہہ کر اُس کے خلاف نفرت کی تبلیغ نہ کرتے ہو۔ 
دونوں خبروں میں سب سے واضح بات جو نظر آئی وہ یہ ہے کہ دونوں جگہ نقصان اور ذلت میں ہم ہی ہیں۔ مومن کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ اُس کی فراست مثالی ہوتی ہے کیونکہ وہ زمانے کو خدا کی آنکھ سے دیکھتا ہے، لیکن ہم میں فراست نام کی کوئی چیز موجود بھی ہے اس بات کایقین کرنا مشکل ہے۔ جان بوجھ کر ہم اپنے آپ کو نقصان میں ڈال رہے ہیں، مسلک اور مکتبہء فکر کا بھوت ہم پراس قدر حاوی ہوچکا ہے ہمیں اپنے ہم مسلکوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جسے ہم حق پر کہہ سکیں۔ ہمارا یمان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ ہمیں قرآن و سنت کے آگے اپنی اپنی ڈفلی بجانا اچھا لگتا ہے اور اس پر ہمیں فخر بھی ہے۔ ہم اپنے نام کے ساتھ مومن،مسلمان نہیں بلکہ سنی شیعی حنفی دیوبندی بریلوی سلفی تبلیغی لکھنا پسند کرتے ہیں۔ پھر بھی ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم حق پر ہیں اور اللہ ہمارے ساتھ ہے ہماری نادانی اور بڑی بھول ہے۔ 
ابھی بھی وقت ہے اگر ہم سچ میں اللہ کے محبوب بندوں میں اپنا شمار چاہتے ہیں، دنیا و آخرت میں عزت کے ساتھ سرخرو ہونا چاہتے ہیں، تو بندوں کی بندگی سے نکل کر خالص اللہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیں۔ اس کے دین پر اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں نہ کہ فلاں ابن فلاں کے بتائے ہوئے طریقے پر۔ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کریں، ان شا ء اللہ یقینا ہم کامیاب ٹہریں گے۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔ 

Leave a comment