وہ جیل جہاں سے زندہ لوٹنے والے خوش قسمت تصور ہوتے ہیں

وینیسا اوِیلا نے جیسے ہی جیل کی جانب سے فائرنگ اور ہنگامے کی آوازیں سنیں تو وہ اس کی طرف بھاگیں۔ جب وہ قریب پہنچی تو انھیں گولیاں چلنے اور گرینیڈ پھٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔

ان کے شوہر ہورہے سلاخوں کے پیچھے قید تھے۔

’ہمیں اندر سے گولیاں چلنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں، لوگ ایک دوسرے کو جان سے مار رہے تھے۔ ہم نے پولیس اہلکاروں سے التجائیں کیں کہ وہ کچھ کریں۔‘

مگر وہ لاچار تھیں۔ وینیسا درجنوں دوسرے خاندانوں کے ساتھ گوایاکوِل کی بد نامِ زمانہ لیٹورل جیل کے باہر کھڑی کسی خبر کی منتظر تھیں۔

’میں نے انھیں میسج کیا، کال کیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔‘ہورہے منشیات رکھنے کے جرم میں آٹھ ماہ کی قید کاٹ رہے تھے جو جون میں ختم ہونے والی تھی مگر انتظامی تاخیر کی وجہ سے ان کی رہائی عمل میں نہیں آ سکی تھی۔وینیسا نے ان کا کیس آگے بڑھانے کی بہت کوشش کی تھی اور اسی صبح ہورہے نے ان سے پیش رفت کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔’میں نے ان سے کہا تھا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے (جج کو) خط لکھا ہے اور خدا نے چاہا تو وہ اگلے ہفتے باہر ہوں گے۔‘

پھر جب وہ کام پر گئیں تو ان کے ایک ہم کار نے انھیں ایکواڈور کی سب سے بڑی جیل میں فساد کی خبر دی۔اس جیل میں آٹھ ہزار سے زیادہ قیدی ہیں جنھیں 12 بیرکوں میں رکھا گیا ہے۔ ہورہے کو پانچویں بیرک میں رکھا گیا تھا، وہی بیرک جہاں شدید ترین لڑائی ہو رہی تھی۔وینیسا نے اگلی صبح تک انتظار کیا مگر کوئی خبر نہیں آئی۔اگلے روز ہورہے کے ایک کزن نے مردہ خانے سے انھیں فون کر کے بتایا کہ ان کی لاش مل گئی ہے۔انھوں نے روہانسے لہجے کہا کہ ’جب ہم نے ان کی لاش وصول کی تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا۔ ان کے سر میں بس ایک گولی لگی تھی۔‘

پانچویں بیرک میں ایک اور قیدی جوناتھن بربانو تھے۔ ان کے بھائی نے بتایا کہ دھویں سے ان کا پورا جسم سیاہ ہو چکا تھا اور ہاتھ اور چہرا بری طرح جھلسے ہوئے تھے۔ان کے بھائی ایلکس نے بتایا کہ ’وہ دماغ میں رگ پھٹنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا اس لیے خیال ہے کہ وہ گرینیڈ کے پھٹنے سے ہلاک ہوئے تھے۔‘اس روز کے اختتام تک لاطینی امریکہ میں جیل کے اندر پھوٹ پڑنے والے اس بد ترین فساد میں 118 افراد مارے جا چکے تھے۔

زیادہ تر قیدی پانچویں بیرک میں مارے گئے تھے جہاں ہورہے اور جوناتھن کو رکھا گیا تھا۔ بعض قیدیوں کے سر کاٹ دیے گئے تھے، دوسرے دھماکوں یا گولیاں لگنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔

بحران کا شکار جیلیں
ایکواڈور کی جیلیں کئی برس سے عملے کی کمی اور بد انتظامی کا شکار ہیں اور 29 ستمبر کو پیش آنے والا تصادم اپنی نویت کا واحد واقعہ نہیں تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد بھی 20 افراد مزید ہلاک ہوئے۔ اس بار زیادہ تر دوسری بیرک میں مارے گئے تھے۔ اس سے پہلے فروری میں 20 قیدی مارے گئے تھے۔گوایاس صوبے، جہاں یہ جیل واقع ہے، کے گورنر پیبلو ایروسیمینا کہتے ہیں کہ ’اس قید خانے کی رکھوالی کے لیے کتنے اہلکار ہیں؟ میرے خیال میں 80 یا اس سے بھی کم گارڈ 8000 قیدیوں پر متعین ہیں۔

قانون کے مطابق جیل حکام کو اسحلہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ گورنر کا کہنا ہے کہ اسلحہ اندر سمگل کرنے والے گینگز سے ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔بہت سے گینگز ہیں جو جیل کے اندر اور باہر اپنے اپنے علاقوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔لِیٹورل کی 12 بیریکیں مختلف گینگز کے درمیان بٹی ہوئی ہیں۔یہ گینگز یا گروہ ملک کے اندر منشیات کی مارکیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔حزب اختلاف کے ایک راہنما کے مطابق جیل وہ جگہ ہے جہاں یہ گروہ ایک دوسرے سے بدلہ لیتے ہیں۔جیل کے ایک سابق اہلکار ایبراہم کوریّا کا کہنا ہے کہ ’جیلوں کا انتظام قیدیوں کے ہاتھ میں ہے اور کرپشن اپنی انتہا پر ہے۔‘’ان گروہوں کے سرغنہ منشیات کی بین الاقوامی سطح پر سمگلنگ کرنے والی تنظیموں سے وابستہ اور پولیس والوں سے زیادہ مسلح ہیں۔‘

عاجز آئی قوم
جیل سے باہر ایکواڈور اس تشدد سے بچتا رہا ہے جس کا سامنا پڑوسی ملک کولمبیا کو ہے۔اگرچہ کوکین اور دوسری منشیات کا بڑا حصہ یہاں سے گزر کر جاتا ہے مگر منشیات کی سمگلنگ سے متعلق تشدد قدرے کم رہا ہے۔مگر اب صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس برس اب سے 1900 افراد قتل کیے جا چکے ہیں، گزشتہ برس یہ تعداد 1400 تھی۔

مگر یہ ایک 11 سالہ لڑکے کی ہلاکت تھی جو سی سی ٹی وی پر ریکارڈ ہوئی اور جس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ٹامس اوبانڈو اپنی بیوی، بیٹی اور 11 سالہ بیٹے سباسشیئن کے ساتھ گوییاکویلی کی مشہور آئسکریم کھانے گئے تھے۔وہ پسند کی آئسکریم لینے کے لیے بچوں کو لے کر کاؤنٹر پر گئے۔ٹامس نے دکان کے اندر ایک پولیس اہلکار کو دیکھا اور پھر ایک ڈاکو اندر آ گیا۔

وہ کہتے ہیں، ’چوری کرنے کا ان کا اپنا انداز ہے جو بہت ڈراؤنا ہے، ان کے ایک ہاتھ میں گن ہوتی ہے اور دوسرے سے جو مرضی آئے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔’وہ شخص اندر آیا اور کہا یہ ڈکیتی ہے۔ اس نے پولیس والے کو نہیں دیکھا تھا۔ پولیس اہلکار نے اسے للکارا۔‘ڈاکو نے اپنی بندوق پولیس والے پر تان لی۔ فوٹیج کے اندر ٹامس ہاتھ اٹھائے ہوئے ڈاکو کے سامنے کھڑے ہیں۔

شوٹنگ
فائرنگ شروع ہوتے ہی ٹامس اپنے بچوں کی طرف مڑے اور سباسشیئن کو زمین پر لیٹا دیا۔ چند لمحوں کے اندر سباسشیئن خون میں لت پت تھا۔

ٹامس نے بتایا، ’ایک شخص نے میرے بیٹے کو اسپتال پہنچانے میں میری مدد کی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس میں جان نہیں تھی۔‘

’جب میں نے اپنے بچے کی لاش دیکھی تو مجھے اس کے جسم میں چار سوراخ نظر آئے۔ اس کے اندر ہر چیز برباد ہوگئی تھی، اس کا دل، اس کا جگر۔‘

’میں نہیں جانتا کتنی گولیاں تھیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ پولیس اہکار نے چلائی تھیں یا ڈاکو نے۔‘

ہنگامی حالت
یہ فوٹیج جب ملک بھر چلی تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ایکواڈور کے صدر گوِلرمو لاسو نے اگلے ہی روز ملک کے اندر ہنگامی حالت نافذ کر دی۔اس سے حکومت کو لوگوں کا اجتماع اور حرکت روکنے اور آرمی کو پولیس کی مدد کے لیے طلب کرنے کے اختیارات حاصل ہوگئے۔امگر ناقدین ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔سیباسشیئن کے والد اپنے بیٹے کی ہلاکت کا ذمہ دار پولیس کو گردانتے ہیں۔’پولیس اہلکار انتظار کر سکتا تھا اور ڈاکے کے بعد ڈاکو کو دکان سے باہر پکڑ سکتا تھا۔ مگر انھوں نے ایک تنگ جگہ میں، جو لوگوں سے بھری ہوئی تھی، فائرنگ شروع کر دی۔

فورس ہی جواب
کئی دوسرے مبصرین کا کہنا ہے کہ ایکواڈور میں جرائم پر محض اضافی سکیورٹی فورس لگا کر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

سونیا کویِنونز، باریو نائجیریا کے علاقے میں، جو زیادہ تر سیاہ فام آبادی پر مشتمل ہے، رضا کار اور بزنس وومن ہیں۔وہ کہتی ہیں، ’اگر میں لوگوں سے جا کر بات کروں تو 95 فیصد دہاڑی مزدور ہیں، ان کے پاس ملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔‘’سڑکوں پر زیادہ پولیس یا فوج تعینات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ لوگوں کی اصل ضرورت روزگار کے مواقع ہیں۔‘سونیا کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں منشیات کے استعمال اور سمگلنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔’اب یہاں بہت سے لوگوں کے لیے منشیات کی فروخت کمائی کا ذریعہ ہے، وہ روزانہ منشیات کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں بیچتے ہیں۔ وہ باتیں جو معمول نہیں تھیں اب معمول بنتی جا رہی ہیں۔‘

لِیٹورل جیل کے باہر ایک چھابڑی والے نے ہمیں بتایا کہ بہت سے قیدیوں کی حالت جورج کے جیسی ہے، ان کی سزائیں ختم ہو چکی ہیں مگر حکام نے اب تک انھیں رہا نہیں کیا ہے۔ان کے مطابق کئی لوگوں کی سزائیں پوری ہوئے دس ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ’مگر جب فائرنگ سٹارٹ ہوتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ کس کی سزا پوری ہوگئی ہے اور کس کی باقی ہے۔‘

جورج کی بیوی اوِیلا کے لیے یہ بات زخموں پر نمک ہے کہ ان کے شوہر کی سزا کئی مہینے پہلے مکمل ہو چکی تھی۔وہ کہتی ہیں، ’ہمیں انصاف چاہیے کیونکہ انھیں رہا کیا جانا چاہیے تھا مگر انھوں نے پروا نہیں کی۔‘’جج نے ہمیں، خاندان والوں کو، مورد الزام ٹھہرایا کہ ہم نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اپنی سزا بھگت چکے تھے۔‘