نوپور شرما احتجاج: پولیس کی مسلمان لڑکوں پر بربریت کی ویڈیو جس نے انڈیا کو ہلا رکھ دیا

دلنواز پاشا اور راجینی ویدیاناتھن ۔بی بی سی نیوز
ایک ایسی ویڈیو جس میں انڈین پولیس کو مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ کو پیٹتے دیکھا جا سکتا ہے انڈیا میں لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔اس ویڈیو کو حکمران جماعت بی جے پی کے منتخب رہنما نے شیئر کرتے ہوئے پولیس کی بربریت کی تعریف کرتے ہوئے اسے ان افراد کے لیے ‘تحفہ قرار دیا۔اب تک ان افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ جن افراد کے خاندانوں پر حملہ کیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کے پیارے بے قصور ہیں اور انھیں فوری طور پر رہا کر دینا چاہیے۔’یہ میرا بھائی ہے، وہ اسے بری طرح مار رہے ہیں، وہ زور زور سے چیخ رہا ہے۔یہ کہتے ہوئے زیبا بے اختیار رو پڑتی ہیں۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے بھائی سیف کی انتہائی دردناک ویڈیو موبائل فون پر دیکھ رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ‘میں تو اسے دیکھ بھی نہیں سکتی، اسے اتنی بری طرح مار پڑ رہی ہے۔‘انڈیا کے شمالی شہر سہارنپور میں وہ اپنے گھر پر موجود ہیں جہاں ان کے رشتہ دار انھیں دلاسہ دے رہے ہیں۔اس دردناک ویڈیو میں دو انڈین پولیس اہلکاروں کو حراست میں موجود مسلمان مردوں کے گروہ کو ڈنڈوں سے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان افراد میں زیبا کے بھائی بھی شامل ہیں۔یہ اہلکار ڈنڈوں کو ایسے گھما رہے ہیں جیسے ان کے ہاتھ میں بیس بال بیٹ موجود ہوں۔ جیسے ہی ڈنڈے کی ضرب ان کے جسموں پر لگتی ہے تو اس کی آواز کے ساتھ ہی چیخیں بھی ابھرتی ہیں۔

‘ہمیں درد ہو رہا، درد ہو رہا ہے۔۔۔ نہ کرو!’ اس گروپ میں موجود چند افراد چلاتے ہیں اور ڈر کر دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے ہاتھوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔مار پیٹ کا سلسلہ یونہی جاری ہوتا ہے کہ ایک سبز ٹی شرٹ میں ملبوس لڑکے کو اپنے ہاتھ پیٹ پر باندھتے دیکھا جا سکتا ہے جیسے نماز میں باندھے جاتے ہیں۔ سیف جو سفید قمیض پہنے ہوئے ہیں اپنے بازو ہوا میں لہراتے ہیں، جیسے خود کو تحویل میں دیتے وقت ملزمان کرتے ہیں۔سیف 24 سال کے ہیں اور وہ ان درجنوں مسلمان مردوں میں شامل ہیں جنھیں پولیس نے گذشتہ ہفتے حراست میں لیا تھا۔نمازِ جمعہ کے بعد ہزاروں افراد قصبے کی مسجد میں اکھٹے ہوئے اور اس مظاہرے کا مقصد بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں متنازع کلمات کے خلاف ملک گیر احتجاج کا حصہ بننا تھا۔مسلمان ممالک کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد جماعت کی جانب سے انھیں معطل کر دیا گیا تھا اور جماعت نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی مذہب کا توہین کرنے کے خلاف ہے۔

سہارنپور میں احتجاج کافی حد تک پرامن رہے ہیں اور لوگ مساجد سے شہر کے مرکز مقامات تک احتجاج کرتے رہے ہیں۔جیسے جیسے تناؤ میں اضافہ ہوا تو ہندوؤں کی دکانوں پر بھی حملے کیے گئے اور دو کاروباری شخصیات زخمی بھی ہوئے۔ افسران کی جانب سے ڈنڈوں کے ذریعے ہجوم کو منتشر کیا گیا۔پولیس کے دستاویزات کے مطابق سیف اور 30 دیگر افراد کو فسادات، تشدد پر اکسانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر دانستہ طور پر ایک سرکاری افسر کو نقصان پہنچانے اور لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔سیف کا خاندان جو ایک متوسط گھرانہ ہے اس بات پر مُصر ہے کہ سیف تو ان مظاہروں میں موجود ہی نہیں تھا، اور وہ بالکل بے قصور ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جمعے کے روز سیف گھر سے شام پانچ بجے نکلا تھا تاکہ ایک دوست کے لیے بس ٹکٹ بک کروا سکے، اس دوران اسے گرفتار کر کے کوٹھوالی پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔جب زیبا ان سے ملنے گئیں تو انھوں نے اپنے بھائی کے جسم پر نشانات دیکھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘اس کا جسم مار پیٹ کے باعث نیلا ہو چکا تھا اور وہ بیٹھ بھی نہیں پا رہا تھا۔’ویڈیو میں واضح طور پر پولیس کی بربریت دیکھی جا سکتی ہے اور اسے جب ایک بی جے پی رہنما شالابھ ترپھاٹی جنھوں نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘غداروں کے لیے تحفہ’۔ترپاٹھی انڈیا کے سب سے زیادہ طاقتور سیاستدانوں میں سے ایک ریاست اترپردیش وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیاناتھ کے سابقہ مشیر برائے میڈیا رہ چکے ہیں۔ سہارانپور ریاست اترپردیش میں ہی موجود ہے۔بی جے پی حکومت اور نہ ہی جماعت کے کسی رہنما کی جانب سے اس فوٹیج کی مذمت کی گئی ہے۔انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 میں بے جی پے کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا میں عدم برداشت کا ماحول ہے اور اس دوران نفرت انگیز بیانات اور ملک کی مسلمان اقلیت کو نشانہ بنانا عام ہو چکا ہے۔بی بی سی نے اس حوالے سے چھ مسلمان خاندانوں سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ داروں کو پولیس کی حراست میں کوٹھوالی پولیس سٹیشن میں مارا پیٹا گیا۔ان رشتہ داروں نے ان ویڈیوز میں اپنے پیاروں کو پہچانا جس میں پولیس ان پر تشدد کر رہی ہے۔ دیگر فوٹیج میں ان افراد کو ایک وین میں لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بعد انھیں ایک اور جگہ لے جایا گیا، اس ویڈیو میں کوٹھوالی پولیس سٹیشن کا بورڈ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس رپورٹ میں بھی اس سٹیشن کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود رواں ہفتے کے آغاز میں مقامی پولیس نے تردید کی کہ یہ واقعہ اس پولیس سٹیشن میں ہوا ہے۔سینیئر پولیس افسر آکاش تومار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسے واقعات سہارنپور میں نہیں ہوئے، دو سے تین ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اگر آپ اس ویڈیو کو سلو موشن میں دیکھیں تو آپ کو اس ویڈیو میں کچھ دیگر ضلعوں کے نام بھی نظر آئیں گے۔‘تومار نے اس کے بعد سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس ویڈیو کی تصدیق کرنے کی کوشش کریں گے اور فوری کارروائی کریں گے اگر اس کی ضرورت محسوس ہو گی۔جن افراد کو ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ پولیس سٹیشن میں مزید معلومات لینے گئے۔فہمیدہ کے بیٹے سبحان جو 19 برس کے ہیں نے پولیس سٹیشن جا کر اپنے دوست آصف کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جسے حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔سبحان کو ہلکے پیلے رنگ کے لباس میں دیکھا جا سکتا ہے اور وہ اس وقت زمین پر گر جاتے ہیں جب ایک پولیس اہلکار ان کی سمت میں ڈنڈا لہراتا ہے۔ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ جمعے کو مظاہرے پر جانا درکنار سبحان تو جامعہ مسجد میں گئے ہی نہیں تھے۔

فہمیدہ نے روتے ہوئے کہا کہ ‘میرے بیٹے کو بے رحمانہ انداز میں مارا گیا۔حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے جمعے کو ہونے والے مظاہرے میں تشدد پھیلانے والے 84 افراد کو گرفتار کیا ہے۔سپرانٹینڈینٹ کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف ملوث افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ‘جب ہم کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو پہلے ہم انھیں ان کی فوٹیج دکھاتے ہیں جس میں وہ مظاہرے کا حصہ ہوتے ہیں، اور اس کے بعد ہی ہم انھیں گرفتار کرتے ہیں۔‘تاہم ان کا یہ دعویٰ ان خاندانوں کے دعوؤں کے منافی ہے جن سے ہم نے بات کی ہے۔اس قصبے میں پولیس سٹیشن سے کہیں دور، طاقت کا استعمال مختلف انداز میں بھی کیا گیا ہے۔ بلڈوزرز کے ذریعے دو مسلمان مردوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے جن پر حکام تشدد پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔انڈیا میں لاکھوں افراد ایسے گھروں میں رہتے ہیں جن کے لیے باضابطہ اجازت نہیں لی جاتیں لیکن تجاوزات کا بہانہ بنا کر سزا دینا بی جے پی کا حربہ بن چکا ہے۔ایسے افراد جنھیں حالیہ مظاہروں میں گرفتار کیا گیا ہے ان کے گھروں کو مسمار کرنے کے احکامات اعلیٰ ترین لیول سے دیے گئے ہیں۔اترپردیش کے وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیاناتھ نے ٹویٹ کیا کہ بلڈوزرز کے ذریعے کارروائی قانون توڑنے والے کے خلاف جاری رہے گی۔ان کے میڈیا کے مشیر مریتتیونجے کمار نے مسلمانوں کے جمعے کے روز عبادت کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہر جمعے کے بعد سنیچر ہوتا ہے۔گذشتہ سنیچر کی دوپہر کو ایک بلڈوزر مسکان کے گھر آیا جہاں اس نے آ کر گھر کا سامنے والا دروازہ توڑنا شروع کر دیا۔پولیس ان کے کرائے کے مکان پر ان کے بھائی کی تصویر لے کر آئے اور پوچھا کہ کیا وہ یہیں رہتے ہیں۔ اس 17 سالہ لڑکے کو گذشتہ روز حراست میں لیا گیا تھا۔مسکان کا کہنا تھا کہ ‘میرے والد نے تصدیق کی یہ ان کا بیٹا ہے اور پوچھا کہ کیا کچھ ہوا ہے۔ انھوں نے جواب نہیں دیا، بس بلڈوزر چلا دیا۔

حکام کی جانب سے جمعے کو اس نوجوان پر لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے بی بی سی کو وہ ویڈیو دکھائی جس میں ان کے مطابق اس لڑکے کو ایسا کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔اس ویڈیو میں وہ مجمعے سے بات کرتے ہوئے کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ ‘اس ملک کے مسلمان سو رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان جاگا ہے، وہ ظلم کی وجہ سے جاگا ہے۔’مسکان اپنے بھائی کے خلاف الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘وہ توڑ پھوڑ کرنے والوں میں سے نہیں ہے، وہ ایسا لڑکا نہیں ہے جو چیزیں توڑے۔۔۔ یہ سب ایک جھوٹ ہے۔حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے خاندانوں کو نوٹس دیا گیا ہے کہ ان کے گھروں کو غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، بغیر کسی باضابطہ اجازت کے۔ایک سینیئر پولیس اہلکار راجیش کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اقدامات کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘جب ہم نے تفتیش کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ان کا خاندان اپنے رشتہ داروں کے غیر قانونی گھر میں رہ رہے ہیں۔‘’مینوسیپل ٹیم نے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ان کے گھر کا دورہ کیا اور کارروائی کی گئی۔انھوں نے خبرادار کیا کہ گرفتار ہونے والے مزید افراد کے گھروں کو مسمار کیا جا سکتا ہے۔نھوں نے کہا کہ ‘بلڈوزر چلایا جائے گا اگر حراست میں لیے گئے افراد کے خلاف کچھ بھی غیر قانونی ثابت ہوا۔وزیراعلٰی اترپردیش یوگی ادتیاناتھ کے مشیر نونیت سیگل نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘بلڈوزر سے کی گئی کارروائی قانون اور ‘ضابطے کے مطابق کی گئی۔۔۔ کچھ بھی ماورائے قانون نہیں کیا گیا۔’

انڈیا کے مشہور قانون دانوں جن میں سابق جج اور مقبول وکیل بھی شامل ہیں نے ملک کی سپریم کورٹ میں پولیس تشدد اور بلڈوزرز کے غیر ضروری استعمال سے متعلق پٹیشن دائر کی ہے۔اس درخواست میں یوگی ادتیاناتھ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے پولیس کو بڑھاوا دیا ہے کہ وہ ‘بربریت اور غیر قانونی انداز میں مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنائیں’ اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تازہ ترین اقدامات ‘قوم کا ضمیر جھنجھوڑ’ رہے ہیں۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘حکومت کی جانب سے اتنے پرتشدد اقدامات قانون کی بالادستی کو سلب کرنے کی ناقابلِ قبول کوشش ہے اور یہ آئین میں ریاست کی جانب سے دیے گئے بنیادی حقوق کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے انڈین حکومت پر کسی بھی قسم کی تنقیدی آواز کو سلب کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘انڈین حکومت کی جانب سے ایسے مسلمانوں پر امتیازی سلوک اور نفرت پر مبنی کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے جو بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور پرامن انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جو وہ اپنے خلاف کیے گئے امتیازی سلوک کے خلاف اٹھاتے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے انڈیا بورڈ کے صدر آکار پٹیل نے ایک بیان میں لکھا کہ ‘مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور طاقت کا بھرپور استعمال، من مانی سے لوگوں کی گرفتاریاں اور گھروں کو مسمار کرنا انڈیا کی جانب سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور معیارات سے متعلق کیے گئے عزم کے منافی ہے۔سہارنپور میں منی بیگم بھی بہت پریشان ہیں اور وہ اپنے بیٹے اور شوہر کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں بھی پولیس نے مارا پیٹا ہے۔انھیں معلوم نہیں ہے کہ وہ کب واپس آئیں گے اور آیا جب وہ آئیں گے تو ان کا گھر بھی موجود ہو گا یا نہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ‘میرا بے قصور بیٹا اور شوہر جیل میں ہیں۔ میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ اپنے نئے مکان میں اکیلی ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر انھوں نے اسے بھی بلڈوز کر دیا تو کیا ہو گا۔ میں رات کو سو نہیں پاتی۔

Leave a comment