’منجل‘ اور ’عزیز‘ نے توڑ دی جان بچانے کے لئے مذہب کی دیوار

ملک میں جہاں ایک طرف ہندو-مسلم مذہب کے نام پر سیاست ہو رہی ہے اور تشدد و موب لنچنگ جیسے واقعات سامنے آ رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو مذہب کی پروا کیے بغیر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ کبھی رمضان میں روزہ کی حالت میں مسلم نوجوان ہندو شخص کو خون کا عطیہ کرتا ہے تو کبھی ہندو افراد اقلیتی طبقہ کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں۔ تازہ واقعہ موہالی کا ہے جہاں مذہب کی دیوار توڑ کر ایک ہندو-مسلم فیملی نے دو جانیں بچائیں۔

دراصل ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی منجل دیوی اور مسلم مذہب سے تعلق رکھنے والے عبدالعزیز کو کڈنی کی بیماری تھی اور ان دونوں کی ہی فیملی اپنے اپنے مریض کی جان بچانا چاہتے تھے۔ دونوں کے ہی گھر کے لوگ کڈنی دینے کے لیے تیار تھے لیکن ان کا بلڈ گروپ نہیں مل رہا تھا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ منجل دیوی اور عبدالعزیز کے گھر والوں کا رابطہ ایک دوسرے سے ہوا اور پھر دونوں نے آپسی اتفاق کے بعد ایک دوسرے کے مریضوں کو کڈنی عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

میڈیا ذرائع کے مطابق کڈنی ٹرانسپلانٹ موہالی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ڈاکٹر پریہ درشی رنجن کی دیکھ ریکھ میں ہوا۔ اب دونوں ہی مریض ٹھیک ہیں اور بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن ان دونوں فیملی کا رابطہ ایک دوسرے سے کیسے ہوا، یہ بھی ایک دلچسپ معاملہ ہے۔ دونوں مریضوں کی فیملی نے ’آئی کڈنی‘ ایپ پر اپنی مشکل بیان کی۔ انھیں اس ایپ پر درج ریکارڈ میں اپنے لیے امکانات نظر آئے۔ دونوں ہی خاندان ایک دوسرے سے ملے اور پھر مذہب کی دیوار توڑ کر ایک دوسرے کو کڈنی عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈاکٹری جانچ کے بعد بہار کی رہنے والی منجل دیوی کے شوہر سجیت کمار اور جموں و کشمیر کے باشندہ عبدالعزیز کی بیوی سازیہ نے کڈنی عطیہ کی۔ گویا کہ سازیہ کی کڈنی منجل دیوی کے جسم کے اندر جب کہ سجیت کی کڈنی عزیز کے جسم کے اندر ٹرانسپلانٹ کی گئی۔ کڈنی کے کامیاب ٹرانسپلانٹیشن کے بعد ڈاکٹر رنجن نے بتایا کہ ’’دونوں فیملی کافی خوش ہیں۔ دونوں مریض کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور جسم صحیح طریقے سے کام کر رہا ہے۔‘‘ پریہ درشی رنجن نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ’’جو کچھ ہوا ہے وہ ’آئی کڈنی‘ ایپ کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔‘‘

Leave a comment