سلطان صلاح الدین ایوبی اور دریائے نیل

صلاح الدین ایوبی کا خاکہ

سنہ 1181 ہے اور ماہ ستمبر کا ایک دن۔ قاہرہ کو پانی فراہم کرنے والی نہر ابو مناجہ کا بند توڑنے کا وقت قریب آ رہا تھا اور شہر کے باسی بیتابی سے اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے جب دریاِئے نیل کا ٹھاٹھیں مارتا پانی اس نہر میں داخل ہونا تھا۔
نہر کے ایک کنارے پر قاری تکبیر پڑھ رہے تھے اور دوسرے کنارے پر نقارے بج رہے تھے۔

مصر اور قاہرہ کے سالانہ کیلنڈر کے اِس اہم ترین دن ملک کے حکمران سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ دریاِئے نیل اور اِس نہر کے سنگم پر موجود تھے۔اس بار ان کا سامنا کسی فوج سے نہیں بلکہ قدرت سے تھا۔ مصر، قاہرہ اور ان تمام ممالک اور خطوں کے لوگ، جن کا انحصار کسی نہ کسی طرح دریائے نیل کے پانی پر تھا، صدیوں سے ہر سال اگست اور ستمبر کے ان دنوں کا انتظار کرتے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس سال دریائے نیل میں کتنا پانی آئے گا۔مؤرخ جانتھن فلپس نے اپنی کتاب ’دی لائف اینڈ لیجنڈ آف دی سلطان صلاح الدین‘ میں دریاِئے نیل میں پانی آنے سے متعلق تقریبات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب سُنی مسلمان صلاح الدین ایوبی مصر کی اسماعیلی شیعہ فاطمی خلافت کے وزیر اور پھر اس کی دو سو سالہ خلافت کے اختتام کے بعد خود حکمران بنے تو انھوں نے بہت کچھ تبدیل کیا۔لیکن ایک چیز جو قائم رہی وہ دریائے نیل پر ہونے والی سالانہ تقریبات تھیں۔

ستمبر سنہ 1181 میں بھی فاطمی دور کی زبردست رسومات کی تصاویر دیکھی گئیں جب بروکیڈ اور لینن زیب تن کیے اہلکار بڑی تعداد میں سلطان کے ساتھ حاضر تھے۔ شرکا میں قرآن کے قاری، اُمرا، سپاہی، اہلکار اور عام حاضرین بڑے ہجوم کی صورت میں موجود تھے۔ اس موقع پر خاص طور پر تیار کیے گئے خیمے میں تعظیمات کا انتہائی تفصیلی سلسلہ مکمل کیا گیا۔
فلپس لکھتے ہیں کہ اتنی اعلیٰ اور پُرتعیش تقریب اور پھر ضیافتوں کا سلسلہ صلاح الدین کے لیے غیر مانوس بات لگتی ہے لیکن ہمیں یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ وہ بڑے پیمانے کی تقریبات کو ناپسند نہیں کرتے تھے جیسا کہ ان کے ایک کزن کے بیٹوں کے ختنے کی تقریب سے ثابت ہوتا ہے، جس میں 700 بھیڑیں ذبح اور 80 قنطار مٹھائی تیار کی گئی تھی۔
ابو مناجہ نہر کا بند کھولے جانے کے موقع پر کدالیں اٹھائے لوگوں نے ان کی طرف سے اشارہ ملتے ہی نہر اور دریا کو الگ کرنے والے بند کو گرانا شروع کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ جدید زمانے میں پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے والے نظام (سنہ 1820 کا آبی نظام اور پھر سنہ 1964 میں اسوان ڈیم) سے پہلے یہ سیلاب ہی مصر کے دل کی دھڑکن تھی۔فاطمی دور میں اقتدار اپنی مختلف جہتوں میں انتہائی تفصیلی عوامی تقریبات کا روپ دھار چکا تھا۔ صلاح الدین نے مصر کا انتظام سنبھالنے کے بعد ان تقریبات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ پرواہ نہیں کی کہ ان رسومات پر گذشتہ حکومت کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ خاص طور پر دریائے نیل سے وابستہ تقریبات قاہرہ اور مصر کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔
فلپس نے بتایا کہ قاہرہ جانے والے سیاح 18ویں صدی تک دریائے نیل کے سیلاب سے وابستہ تقریبات کا ذکر کرتے رہے۔ ان میں سے دو آنکھوں دیکھے احوال کا ذکر آگے چل کر جن میں ایک طرف ان تقاریب کی شان و شوکت دیکھیں گے اور دوسری طرف مصر کے وہ انتہائی تکلیف دہ مناظر جب دریائے نیل میں پانی نہیں آتا تھا اور ’بھوکے انسان، انسان کا شکار کرتے نظر آتے تھے۔‘
فرعون اور دریاِئے نیل کے جشن کا سلسلہ
دریائے نیل کے سیلاب کا آغاز جون کے وسط میں ایتھوپیا اور وسطی افریقہ کی جھیلوں کے علاقے میں بارشوں سے ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ پانی کی سطح بلند ہوتی رہتی ہے اور اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں انتہائی سطح تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اکتوبر اور نومبر میں نیچے جانا شروع ہوتی ہے۔فلپس لکھتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ کا باقاعدہ ریکارڈ بہت ضروری تھا اور اس کا حل ’نائلومیٹر‘ کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ فسطاط اور گیزا کے بیچ میں دریائے نیل کے جزیرہ الروضہ کی سب سے مشہور نشانی یہی تھی۔
خاص طور پر بنائی گئی عمارت میں تعمیر کیا گیا ڈھانچہ دراصل پانی کی سطح ناپنے والی ایک بہت بڑی چھڑی جیسا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس کا اصل مقصد یہ بتانا تھا کہ دریا میں پانی ضروری سطح تک پہنچ گیا یا نہیں۔ پانی کی سطح ضمانت تھی کہ مصر کے لیے یہ سال کیسا رہے گا اور اس برس فصل کیسی ہو گی۔
حکمران انہی معلومات کی بنیاد پر ٹیکس کا تخمینہ لگاتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ 12ویں صدی کے مؤرخ المخزومی نے سنہ 1169-1170 کی اپنی تحریروں میں اس حساب کتاب کا تفصیلی ریکارڈ چھوڑا ہے۔
نائلومیٹر سے پانی کی سطح کی پیمائش دراصل نہروں کو کھولنے کا بھی اشارہ ہوتا تھا۔ ان نہروں میں پانی ایک ترتیب سے جاری کیا جاتا تھا۔
اس موقع کی اہمیت کے پیش نظر صدیوں سے بہت سی رسومات وجود پا چکی تھیں۔ ان رسومات کا سلسلہ فرعونوں کے زمانے تک ملتا ہے لیکن تقریباً دو سو سال قائم رہنے والی اسماعیلی شیعہ فاطمی خلافت ان رسومات کی شان اور شوکت کو ایک نئی سطح پر لے گئی۔
نائلومیٹر کی تاریخ
نائلومیٹر کا معائنہ کرنے والے اہلکار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مؤرخ عماد الدین نے سلطان صلاح الدین کی سوانح میں اس دور میں نائلومیٹر کے ذمہ دار اہلکار کی موت کا بھی ذکر کیا۔
فلپس اس دور کے مؤرخ عماد الدین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’نائلومیٹر کے مقام کا تعین سنہ 861 میں عباسی دور میں ہوا تھا تاکہ پانی کے اتار اور چڑھاؤ کے بارے میں معلوم کیا جا سکے۔ عبدالسلام ابن ابی الرداد اپنی سچائی اور علم کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ انھیں سیلاب کے موسم میں امرا کی خلعت بھی انعام میں مل چکی تھی اور جب (1179 کے آغاز میں) شعبان میں ان کا انتقال ہوا تو سلطان نے ان کے بھائی کو ان کی جگہ تعینات کر دیا۔‘
سنہ 1181 میں اگست کے مہینے میں سلطان صلاح الدین نائلومیٹر سے پانی کے بہاؤ کی پیمائش کے موقع پر خود موجود تھے۔ اندازہ تو سب ہی لگا لیتے تھے لیکن پانی کی سطح کے بارے میں حتمی فیصلہ ماہر اہلکار کا ہی ہوتا تھا۔
دریا کے پانی کی سطح ’سرکاری راز‘
فلپس بتاتے ہیں کہ اس زمانے کی ایک دستاویز کے مطابق پیمائش کا نتیجہ خفیہ رکھا جاتا تھا اور وزیر سے پہلے کسی کو معلوم نھیں ہو سکتا تھا۔ اس زمانے کے پیمانے کے مطابق 16 کیوبٹ کا بہاؤ بہترین سمجھا جاتا تھا، 20 کیوبٹ خطرناک سیلاب کی خبر دیتا تھا اور اگر پانی کی سطح کم ہوتی جیسا کہ سنہ 1179 میں ہوا تو اس کا نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں سامنے آتا تھا اور تجارتی بحری جہازوں کے لیے قاہرہ کا سفر بھی مشکل ہو جاتا تھا۔
فاطمی دور کے خلفا خود ان تقاریب کی قیادت کرتے تھے اور اس دور کی تحریروں میں ان تقاریب کا تفصیلی احوال محفوظ ہے۔ صلاح الدین نے بھی بحیثیت وزیر فاطمی خلیفہ کے ساتھ یہ تقریب دیکھی تھی۔ انھوں نے اس موقع پر نکلنے والے جلوس اور رسومات کے بارے میں تفصیلی ہدایت نامہ بھی طلب کروایا تھا۔
فاطمی دور کے جشن کی شان و شوکت اور قرآن خوانی
تقاریب کا اعلان ہوتے ہی قاہرہ میں جشن شروع ہو جاتا تھا جس میں ہر طرف مٹھائیاں بٹتی اور موم بتیاں جلائی جاتی تھیں۔
فلپس بتاتے ہیں کہ اس دور کا ایک آنکھوں دیکھا حال المقرضی کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ سنہ 1181 میں انھوں نے لکھا کہ سلطان صلاح الدین گھوڑے پر نائلو میٹر تک گئے۔ پانی کی سطح کا اعلان ہونے پر انھوں نے اس اہلکار کو فاطمی روایت کے مطابق شاہی خلعت سے نوازا۔
اس اہلکار کا عہدہ بھی وہی تھا جو فاطمی خلفا کے دور میں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ نویں صدی سے لے کر مصر میں عثمانی دور تک یہ عہدہ ایک ہی خاندان کے پاس تھا۔
فلپس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ روایت کے مطابق پانی کی سطح کی پیمائش سے ایک رات قبل مصر اور قاہرہ کی جامع مساجد میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا تھا۔
مصر کی جامع مسجد میں سلطان کی دلچسپی اس مسجد کی بحالی کے کام سے لگائی جا سکتی ہے۔ اس مسجد کو دریا کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔ دو برس قبل جب دریا میں پانی نہیں آیا تھا تو نائلومیٹر کی تہہ سے ایک قبر نمودار ہوئی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت یوسف کی تھی جنھیں حضرت موسیٰ نے وہاں دفن کیا تھا۔