بے کسوں کا ترجمان: "شاعر یا گویّا…؟”

کسی بھی قلمکار کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچانے میں اسکے قارئین کا نہایت اہم رول ہوتا ہے… قاری اگر ذہین و سنجیدہ ہو تو اعلیٰ پائے کے فنکار سامنے آتے ہیں اور انھیں وہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے جسکے وہ حقدار ہیں… مگر قاری اگر کم عقل اور بد ذوق ہو تو تو پھر ہر ایرا غیرا شہرت کی بلندیوں پر پہنچتا ہے، اور اچھے فنکار گمنامیوں میں سو جاتے ہیں…

الحمدللہ اردو زبان کو ہمیشہ سے ہی ذہین و فطین، سنجیدہ اور باذوق قاری ملے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس زبان نے جہاں ایک طرف ملا وجہی، ڈپٹی نذیر، آغا حشر کاشمیری، ابنِ صفی اور منٹو سے لے کر مشتاق یوسفی، بانو قدسیہ، سلام بن رزاق جیسے بے شمار اعلی پائے کے نثر نگار دئے ہیں وہیں امیر خسرو، میر، غالب، ذوق، اقبال، جگر سے لے کر فراز، پروین شاکر، امجد اسلام اور بشیر بدر جیسے سینکڑوں بہترین شعراء بھی دئے ہیں… یہ اس وقت کے سنجیدہ قارئین ہی تھے جنھوں نے ان تمام لوگوں کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا تھا اور انھیں انکا جائز مقام دلایا تھا…
مگر افسوس..! ایک طرف جہاں ہماری تاریخ رہی ہے سنجیدہ و باذوق قارئین پیدا کرنے کی وہیں دوسری طرف آج ہمیں یہ وقت بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ ہر ایرا غیرا گویّا، مقبولِ عام شاعر بنا بیٹھا ہے…

گزشتہ دنوں اسی طرح کے ایک مشہور گویّے کی تعریف میں ایک نثری قصیدہ پڑھ کر بہت دکھ ہوا… صاحبِ مضمون نے عنوان سے ہی کئی باذوق حضرات کے دلوں پر چھریاں چلادیں جب انھوں نے اس مشہور گویّے کو "بے کسوں کا ترجمان شاعر” کہا…. اپنے مضمون کے پہلے ہی پیراگراف میں موصوف نے فخریہ اس بات کو بیان کیا کہ انھیں شعر و ادب سے بچپن ہی سے لگاؤ رہا… بڑی اچھی بات ہے،، ہر محبِّ اردو ہو یہ لگاؤ ہونا بھی چاہئے مگر میں معذرت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ جناب آپ کو بس شعر و ادب سے لگاؤ ہی رہا ہے کبھی آپ نے سنجیدگی کے ساتھ اس جانب توجہ نہیں دی ورنہ آپ ایک گویّے کو "شاعر” نہیں کہتے… موصوف آگے لکھتے ہیں کہ آج کل مشاعروں میں ایسے افراد آگئے ہیں جنھیں نہ قافیہ سے شناسائی ہے نہ ردیف کی معلومات ہے.. بحر و اوزان کی بات درکنار تذکیر و تانیث کے درمیان تمیز کرنے سے بھی عاجز و قاصر ہیں…. اور اسکے فوراً بعد انکے "شاعر” کی شان میں قصیدہ شروع ہوتا ہے…
میں جواباً بس اتنا کرنا چاہتا ہوں کہ انھیں کے "شاعر” کے دو نمونے یہاں پیش کردیتا ہوں جس میں موصوف نے کیسے قوافی باندھیں ہیں آپ خود دیکھ لیں اور ان مصرعوں کے وزن کیا ہیں یہ مجھ کم علم کو بتادیں

سد بھاونا "سیکھ” رہے ہوں گے

شرمندہ "دیکھ” رہے ہوں گے

پیچھے تصویر میں گاندھی جی

یہ کہہ کر "چیخ” رہے ہوں گے

👆🏻یہاں حضرت نے سیکھ، دیکھ اور چیخ کو بطور قوافی استعمال کیا ہے… ایک اور نمونہ دیکھ لیں👇🏻

جس شخص کی کرسی ٹکی ہوئی ہے معصوموں کی لاش پر
اس کی بے شرمی تو دیکھو، وہ بیٹھا ہے اُپواس پر

بھلا لاش اور اپواس کب سے ہم قافیہ ہوگئے؟؟
فاضل قلمکار آگے لکھتے ہیں کہ آج اس "شاعر” کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے ہر کوئی پھولوں کا ہار لئے اس کے استقبال کو کھڑا رہتا ہے… افسوس..! کسی کے فن کو پرکھنے کا یہ معیار کب سے ہوگیا؟
مضمون کے آخری پیراگراف میں "شاعر” کی انسانیت اور رحمدلی کو بیان کیا گیا ہے جس سے مجھے کوئی اعتراض نہیں… کیوں کہ اگر وہ ایک اچھا انسان ہے تو اسکی تعریف ہونی چاہئے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسکے جذبہ انسانیت کو دیکھتے ہوئے آپ اسے گویّے سے سیدھا "شاعر” ہی بنادیں… موصوف کا مضمون پڑھ کر مجھے واقعی بہت افسوس ہوا… کیوں کہ اردو زبان کا قاری کبھی اتنی نیچی سطح پر نہیں آیا کہ ایک گویّے کو جسے شاعری کی الف بھی نہیں معلوم، مقبول عام شاعر بنادے… میر و غالب کے دور میں بھی یقیناً ایسے تک بندی کرنے والے موجود تھے مگر اس دور کا قاری اتنا سنجیدہ اور باذوق تھا کہ ان گویّوں کا آج نام و نشان تک نہیں ہے اور نہ ہی اس دور میں کسی نے انھیں کوئی اہمیت دی… مگر آج کا قاری اتنا بدذوق ہوگیا کہ ایک کے بعد ایک ایسے گویّے مقبول ہوتے جارہے ہیں…. اخیر میں بس یہی التماس کروں گا کہ خدارا اردو زبان کی تنزلی کی وجہ نہ بنیں… جو جس مقام کا حقدار ہے اسے وہ مقام ضرور دیں… اور ایسے تک بندی والوں کو "شاعر” کہہ کر عظیم شعراء کی روح کو شرمندہ نہ کریں

والسلام…

اطہر کلیم انصاری- ناندیڑ

Leave a comment