بے باک عوام کی "بزدل قیادت”

ایس ایم صمیم، ناندیڑ.موبائل: 9960942261

ملک کی موجودہ صورتحال اور بالخصوص مہاراشٹر کی سیاسی اتھل پتھل سے عوام میں بے چینی اور مایوسی پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے سیکولر کہلانے والے قد آور سیاسی رہنماؤں کا خاص کر سابق لوک سبھا ممبر ملند دیواڑا، باندرہ کے سابق رکن اسمبلی بابا صدیقی اور اب اچانک سابق وزیر اعلیٰ، کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر، اشوک راو چوہان کا پارٹی کو خیرآباد کہنا فسطائی طاقتوں کی حوصلہ افزائی اور جمہوریت پسند عوام کے لئے حوصلہ شکنی کا کام کررہا ہے.

نوجوان اور اقلیتیں اضطرابی کیفیت کا شکار ہورہی ہیں خصوصی طور پر مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کو تنہا اور بے سہارا بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود باشعور اور بہادر عوام کی ایک خاص تعداد فسطائی اور فرقہ پرست قوتوں کے خلاف جرات مندی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔

اشوک راو چوہان، حکمت عملی یا بزدلی؟

ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک راو چوہان کا اچانک پارٹی سے مستعفی ہونا کئی طرح کے سوال کھڑے کرتا ہے۔ اول یہ کہ کیا وہ ایک مضبوط جمہوریت پسند سیاسی لیڈر ہے؟ کیا وہ بحالت مجبوری کانگریس پارٹی سے مستعفی ہوئے ہے یا سوچ سمجھ کر اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ زعفرانی قوتوں کو مستحکم کرنے کیلئے کانگریس سے الگ ہوئے ہے یا پھر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ED سے بچنے کے لئے ان کی حکمت عملی ہے؟ پچھلے دنوں مہاراشٹر کے اور بھی دیگر سیاسی رہنماؤں پر ای ڈی کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا جس میں دو نام بہت اہم ہیں ایک نواب ملک کا اور دوسرا سنجئے راؤت کا.

دراصل مرکزی سرکار تقریباً تمام ریاستوں میں ای ڈی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے علاقائی لیڈرز کو اپنے شکنجے میں کسنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے یا پھر ان رہنماؤں کو عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے میں کامیاب ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود جمہوریت پسند اور مضبوط نظریہ رکھنے والے سیاسی قائدین ای ڈی اور بی جے پی دونوں کا سامنا کررہے ہیں، ایسے حالات میں جب کہ کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں متحدہ ہوکر بی جے پی اور فرقہ پرست قوتوں کو روکنا اور شکست دینا چاہتی ہیں کانگریس کے بڑے رہنماؤں کے استعفے اور میدان چھوڑ کر بھاگنا ان کی بزدلی، خوف اور منافقت کو اجاگر کرتا ہے۔

عوام لڑائی کو سمجھے

اصل لڑائی کیا ہے یہ صرف دو سیاسی جماعتوں یا چند سیاسی رہنماؤں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ دو نظریات ہندوتوا اور جمہوریت کی لڑائی ہے، ایک نظریہ اس ملک کی عوام کو عوامی جمہوریہ اور خوشحال ریاست کا تصور دیتا ہے تو دوسرا نظریہ اسی جمہوریت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کو تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا کرکے فسطائی ریاست (ہندوراشٹر) کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں نظریات کو گہرائی سے سمجھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں؟ ملک کی کمزور اور بزدل قیادت کے ساتھ ہے یا عوام اور عوامی تحریکات کے ساتھ کیونکہ اب یہ لڑائی راست عوام اور فسطائیت کے بیچ ہوتی نظر آرہی ہے اب اس ملک کو فسطائیت سے بچانے کیلئے عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کو سامنے آنا ہوگا مخالف جماعتوں سے امید لگانا عقلمندی کی بات نہیں ان کی قیادت اور رہنما خود ہی خوف اور مایوسی کا شکار ہیں .

لہٰذا اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں اور دلتوں کو دیگر سیکولر عوام اور پسماندہ و محروم طبقات کے ساتھ ملک کی فلاح و بہبود اور جمہوریت کی بقاء کے لئے میدان عمل میں اُترنا ہوگا۔