بھیونڈی:سنویدھان بچاو سنگھرش سمیتی کی جانب سے ” وی ریجیکٹ سی اے اے ، این پی آر ، این آر سی ” کے عنوان پر اجلاس عام ، لاکھوں کی تعداد میں مر و خواتین کی شرکت

بھیونڈی ( شارف انصاری ):- شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آج ملک میں جاری آندولن کی اگر کوئی سچی تصویر ہے تو وہ میری بہنوں اور ماوں کا احتجاج ہیں ۔ جیسا کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک نوجوان کو بچانے کے لئے آگے آئی دو طالبات اور جی این یو میں زخمی ہوئی خاتون اسٹوڈینٹ لیڈر اور شاہین باغ میں ڈٹی خواتین کو آج دیکھا جارہا ہے ۔ آج یہاں بھیونڈی کے دھوبی تالاب پرشورام ٹاورے اسٹیڈیم میں سنویدھان بچاو سنگھرش سمیتی بھیونڈی مہاراشٹرا کی جانب سے ” وی ریجیکٹ سی اے اے ، این پی آر ، این آر سی ” کے عنوان پر اجلاس عام کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی ۔ جہاں عوام کے تاریخی جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے مقرر خصوصی یوگیندر یادو نے ملک کے وزیر اعظم پر سخت تنقید کرتے ہوئے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بھیونڈی والے مودی جی سے زیادہ بہتر جانتے ہے کہ کپڑا کیسے بنتا ہے ۔ اس کے لئے تانا بھی ضروری ہے اور بانا بھی ضروری ہے ۔ انھوں نے مضبوط بھارت کی تشکیل اور ہندو مسلم ایکتا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہمارے ملک بھارت کو تانے اور بانے دونوں کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو ٹوپی اور کرتا تو دکھائی دیتا ہے ۔

مگر ان کے ہاتھوں میں لہراتا ترنگا نہیں دکھائی دیتا ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں حکومت کی کارگردگی سے تنگ اور مایوس ہوکر مردوں کے ساتھ خواتین بھی میدان میں نکل پڑی ہے ۔ شاہین باغ میں احتجاج میں بیٹھی میری ماووں بہنوں نے ملک کے دلوں پر دستک دیا ہے ۔ ملک میں مکان مالک اور کرایہ دار کے درمیان کوئی تفریق کرنے والا قانون اس ملک میں برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی حکومت کی دھوکہ بازی کہ یہ شہریت دینے والا قانون ہے کا آپریشن کرتے ہوئے یوگیندر یادو نے کہا کہ بھیونڈی کہ داخلی گیٹ پر اگر یہ بورڈ لگا دیا جائے کہ شہر کے اندر ہندووں کا داخلہ ممنوع ہے اور شہر کے ہندووں سے یہ کہا جائے کہ تم بے فکر رہوں تو کیا شہر کے اندر رہنے والے ہندووں کو اپنے بھائی بہین اور رشتے داروں سے محروم رہنے سے تکلیف نہیں ہوگی ۔ ریاستی وزیر ڈاکٹر جیتندر اوہاڑ نے کہا کہ کئی مہینوں سے پورے ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف احتجاج ہورہا ہے اس دوران کئی بار حکومت نے اپنے ہی فیصلے میں ترمیم کی جیسا کی کیب پھر سی اے اے اس کے بعد این پی آر وغیرہ ہوا سکتا ہے آگے اس احتجاج کو کمزور کرنے کے لئے ہندو مسلم ایکتا کو توڑنے کے لئے اور بھی ترمیم کی جائے مگر ہمیں کسی دھوکے میں آئے بغیر اس قانون کے مکمل طور پر واپس لئے جانے تک ہمیں احتجاج جاری رکھنا ہوگا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ کیرلا کی طرح مہاراشٹر میں بھی اس قانون کو لاگوں نہ کرنے کی جدوجہد کی جائے گی ۔اس موقع پر جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے آئی پی ایس آفیسر عبدالرحمن نے کہا کہ کوئی بھی دستاویزات ہم نہیں دیں گے ۔

ہم اسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں یہ ملک ہمارا ہیں ۔ دہلی میں جاری سرکاری بربریت کے سلسلے میں انھوں نے بڑی بیباک سے کہا دہلی پولیس حکومت کی غلامی نہ کریں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہے ۔ پولیس کو اپنا وقار باقی رکھنا چاہئے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی شکل میں اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کی مدد کریں ۔ سپریم کورٹ میں ساٹھ سے زائد مفاد عامہ کہ عرضداشت ( پی آی ایل ) داخل کی گئی ہے ایسے لوگوں کی بھی مدد کریں ۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا عوام کہ وہ ٹی وی نیوز دیکھنا بند کریں جو صرف سرکار کی وکالت کرتی ہیں ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کے حکومت اور وزیراعظم مودی ، امت شاہ عوام کو یہ باور کرانے میں لگے ہے کہ مذکورہ قانون شہریت دینے کے لئے ہے ۔ جبکہ حقیقتا یہ قانون شہریت کو تلف کرنے والا ہے ۔

جامعہ ملیہ کے طالب علم کامران نے دہلی پولیس کی ظالمانہ داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑائی ملک کی ہے ۔ جمہوریت کے بقاء کی ہے ۔جس کی حفاظت کے لئے یونیورسٹی میں لڑکوں سے قبل لڑکیاں آگے آئی اور احتجاج آواز کو بلند کیا ۔ 15 تاریخ کو پولیس نے لائبریری میں گھس کر طالبہ و طالبات پر لاٹھی چارج کیا ۔ درجنوں بچوں کو زخمی کیا ۔ وہاں کے واچ مین گارڈ کو بھی مارا ۔ مسجد کے امام پر بھی حملہ کیا گیا ۔ اب حکومت ہندووں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس قانون کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہیں تم سامنے مت آو لیکن اس قانون سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم کمزور اقلیت کے لوگ متاثر ہونگے کیونکہ ان کہ پاس کوئی دستاویزات نہیں رہتا ۔ ٹھاٹھیں مارتے انسانی سمندر سے خطاب کرتے ہوئے کولسے پاٹل نے کہا مسلمان بہانہ ہے آئیڈیا لوجی نشانہ ہے ۔ جب لڑکیوں نے مودی اور امت شاہ کو چیلینج کیا یہ غیرمعمولی بات تھی ۔ اس کا مطلب پانی ناک کے اوپر آگیا ہے ۔

اور ظلم کی انتہا ہو گئی ۔ تبھی خواتین میدان میں آئی ۔یہ مسئلہ ملک کا ہے نہ کہ صرف مسلمانوں کا ۔ 11 ریاستوں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا یہ اچھی بات ہے ۔ مگر یہ کافی نہیں ہے ۔ رکن پارلیمان اور رکن اسمبلی کو چاہئے کہ وہ اس بات کو قبول کریں کہ یہ قانون دستور ہند کے خلاف ہے اور کیرلا کی طرح سپریم کورٹ جائیں ۔