آہ! مردِ مومن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ

محمدتقی :9325610858 (ناندیڑ)
زیرنظر مضمون ”آہ! مردِ مومن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ “ راقم الحروف نے مولانا کی وفات کے چنددن بعد تحریر کیا تھا ‘جو بمبئی سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ”انقلاب“ میں ستمبر1979ءکے آخری ہفتے میں شائع ہواتھا ۔ مجھے قطعی تاریخ یاد نہیں ہے اور مولانا مودودی ؒ کاوصال 22 ستمبر 1979ءمیں ہواتھا ۔اس وقت میں ایم ۔اے ۔کاطالب علم تھا اورقدیم شہرناندیڑ کے چوک علاقہ میں واقع ”مکتبہ رہنمائے انسانیت” روزانہ پابندی سے جایا کرتا تھا ۔اس مکتبہ کے سربراہ اور معلم مرحو م مولوی محمد نصرت حسین صدیقی تھے جو جماعت اسلامی ناندیڑ کے رکن تھے انھیں مسلم نوجوانوں خصوصاً طلباء کی دینی انداز میں تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔وہ قلندرانہ ززندگی گزارتے تھے دن بھر جماعت اسلامی ادارہ سے شائع ہونیوالی کتب ‘ اخبارات (دعوت) وغیرہ کوتقسیم کرتے اورشام میں مکتبہ پہونچ کر طلباء اور نوجوانوں سے ملاقاتیں کرتے ان سے حالات حاضرہ کے علاوہ دینی موضوعات پربھی تبادلہ خیال کرتے ۔

اس وقت میں ایم ۔اے ۔کاطالب علم تھا اورقدیم شہرناندیڑ کے چوک علاقہ میں واقع ”مکتبہ رہنمائے انسانیت” روزانہ پابندی سے جایا کرتا تھا ۔اس مکتبہ کے سربراہ اور معلم مرحو م مولوی محمد نصرت حسین صدیقی تھے جو جماعت اسلامی ناندیڑ کے رکن تھے انھیں مسلم نوجوانوں خصوصاً طلباء کی دینی انداز میں تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔وہ قلندرانہ ززندگی گزارتے تھے دن بھر جماعت اسلامی ادارہ سے شائع ہونیوالی کتب ‘ اخبارات (دعوت) وغیرہ کوتقسیم کرتے اورشام میں مکتبہ پہونچ کر طلباء اور نوجوانوں سے ملاقاتیں کرتے ان سے حالات حاضرہ کے علاوہ دینی موضوعات پربھی تبادلہ خیال کرتے ۔

میرے اس مضمون کااخباری تراشہ میرے پاس کئی سالوں تک رہا لیکن بعد میں کہیں کھوگیا ۔ میں نے ناندیڑ کے ایک فنکار اور میرے مخلص دوست منظور ہاشمی سے اس مضمون کے بارے میں ذکر کیا تو انھوں نے فوری کہا کہ آپ کا مضمون ”انقلاب “ میں شائع ہوا تھا ۔ تراشہ میری فائل میں محفوظ ہے ۔ انھوں نے بڑی محنت سے تلاش کیا اورتراشہ مجھے دیا ۔ میں ان کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ محمدتقی (ناندیڑ)

ایک عالم دین ‘ مفکر اسلام ‘مفسر قرآن ‘مدبر ‘مبلغ ‘مقرر صاحب ‘طرز ادیب اور بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا 76 سال کی عمرمیں انتقال پُرملال یقینا دنیائے اسلام اور ملت اسلامیہ کےلئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ خدا مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

مولانا کی برگزیدہ شخصیت‘ پاکیزہ کردار اورسچی تحریروں نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں کو اُن کے مشن ”احیائے اسلام“ جو پیغمبرا ن اسلام اور اولیائے اسلام کا بھی مشن تھا مائل کردیا۔ مولانا مودودی نے 25 ستمبر 1903ءکو اورنگ آباد (دکن) میں اس وقت آنکھیں کھولیں جب ساری دنیا کے مسلمان انحطاط اور پستی کی سمت جارہے تھے ۔

معاشرتی‘ ثقافتی ‘ مذہبی اور سیاسی واخلاقی بدحالی کے بھیانک بادل مسلمانوں کے سروں پر منڈلارہے تھے ۔ اورانسانیت دہریت‘ اشتراکیت ‘عیسائیت اور مغربیت کے آہنی پنجوں میں جکڑی دم توڑ رہی تھی۔ان حالات میں ہرمسلم رہنما ملت کو معاشرتی بحران سے نجات دلوانے کی تحریک چلارہاتھا۔

علی برادران تحریک خلافت کے ذریعہ مسلمانوںکو ایک پلیٹ فارم پرلانے کی جدوجہدکررہے تھے ۔ علامہ اقبال اپنے شیریں کلام سے نوجوانوں کے کانوں میں جذبہ حریت کاصور پھونک رہے تھے ۔شبلی اور حالی اپنی تحریروں سے مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار واپس دلوانے کی کوشش کررہے تھے اورادھر مسلم لیگ اور کانگریس ہندوستانیوں کوانگریزوں کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانے کے لئے مختلف اٹکلیں آزمارہی تھیں ۔ چنانچہ یہ تمام عناصر وعوامل بھی مولانا کی فکر اور زندگی پراثر اندا ز ہوئے ۔

مولانا کے والد ماجد اورنگ آباد کے ایک معزز وکیل تھے ۔ لیکن آپکی پیدائش کے بعد انہوں نے وکالت ترک کردی تھی۔ مولانا کی زندگی کے قدوخال کو سنوارنے میں انکے گھر کے مذہبی ماحول اور والدین کی تربیت نے کافی مدد کی ۔ وہ بچپن ہی سے صوم صلوة کے پابند تھے ۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم گھر پرہوئی ۔ مگر بعد میں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد میں داخل کردئے گئے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ 1925ءمیں جبلپور چلے گئے اور اخبار”تاج“ کی ادارت میں شریک ہوگئے اور یہیں سے ان کی صحافتی زندگی کاآغاز ہوتا ہے ۔

آپ وقفہ وقفہ سے ایک عرصہ تک صحافت سے وابستہ رہے ۔روزنامہ”تاج“ جبلپور ‘ سہ روزہ ”بجنور“ اور”مسلم“ دہلی اور روزنامہ ”الجمعیتہ “ دہلی سے وابستہ رہے۔جمعیتہ علماءسے نظریاتی اختلافات کی بنیادوں پر آپ نے الجمعیتہ کی ادارت سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ 1928ءمیں حیدرآباد(دکن) چلے گئے اوررسالہ ” ترجمان القرآن “ کااجراءکیا جو اب تک لاہور سے جاری ہے۔

1938ءمیں شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی دعوت پرآپ پٹھان کوٹ تشریف لے گئے۔ اگست 1941ءمیں جماعت اسلامی کی تاسیس آپ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔یہ ایک مذہبی اورمعاشرتی تنظیم تھی جو انسانوں کو توحید‘ رسالت اور آخرت کی تعلیم دیتی تھی ۔ملک کی تقسیم کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی بھی دو حصوں میں بٹ گئی اور اب جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کے ناموں سے اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے اپنے اپنے ملکوں میں کام کررہی ہے ۔پاکستان میں جماعت اسلامی کوایک اہم سیاسی جماعت کاموقف بھی حاصل ہوگیا ہے ۔اور جس کے امیر میاں طفیل محمد ہیں ۔ ایک مرتبہ مولانا نے تنظٰیم کی صفوں میں انتشار اور رفقاءمیں عمل کے فقدان کو دیکھتے ہوئے فرمایاتھا

”میرے لئے تو یہ تحریک میں مقصدِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اورجینا اس کے لئے ہے ۔ کوئی آگے نہ بڑھے گاتومیں بڑھوں گا ‘کوئی ساتھ نہ دے گاتو میں اکیلا چلوں گا ساری دنیا متحدہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں عار نہیں“۔

تقسیم کے بعد 30اگست 1947ءکو آپ پٹھان کوٹ سے لاہور منتقل ہوگئے اور اپنی زندگی کے باقی دن وہیں گزاردئے۔ 1953 میں پاکستان کی فوجی حکومت نے آپ کو ”قادیانی مسئلہ“ لکھنے کی پاداش میں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا اورپھانسی کی سزاسنادی ۔اس خبر کوسن کر مولانا کی پیشانی پربل تک نہیں آیاان کی حوصلہ مندی اور خداپرستی کا یہ حال تھا کہ آپ اس موقع پر سزا ئے موت کے سائے میں اپنے فرزند فاروق میاں کوفرماتے ہیں۔

”بیٹا ذرانہ گھبرانا‘اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا ہی منظور کرلیا ہے توبندہ بخوشی اپنے رب سے جا ملے گا اوراگراس کاہی ابھی حکم نہیں تو پھرچاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں لیکن مجھ کو نہیں لٹکاسکتے “ ۔

ہاں! وہ کیونکر مرسکتے تھے انھیں تو نیویارک میں 22ستمبر1979 ءکی شب ہی مرنا تھا ۔قیدکی رہائی کے بعد آپ نے اپنے بیشتر اوقات تحقیقی اورتصنیفی کاموں میں صرف کردئے اورآخردم تک پڑھنے ‘لکھنے کاسلسلہ برابرجاری رہا ۔چنانچہ آپ کی زیرتکمیل دوکتابیں”تدوین احادیث ااور سیرت البنی کے تمام ہونے سے پہلے ہی آپ کی زندگی تمام ہوگئی۔

مولانائے مرحوم نے تقریبا 70 سے زائد کتابیں تحریرفرمائی ہیں جن میںتفہیم القرآن ‘ دکن کی سیاسی تاریخ‘ الجہادفی الاسلام ‘ پردہ‘ ضبط ولادت‘حقوق الزوجین ‘سود ‘رسالہ دینیات وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ آپ کی تمام کتابوں کادنیا کی تقریبا 30بڑی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکاہے ۔جرمنی ‘امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اورہندوستان وغیرہ کی یونیوسٹیوں میں طلباءآپ کے لٹریچر پرریسرچ کررہے ہیں۔

مولانا اردو ‘ عربی ‘فارسی‘انگریزی اورفرانسیسی زبان سے بھی اچھی طرح واقف تھے اردو زبان وادب پرآپ کوعبور حاصل تھا ۔ آپ کالب ولہجہ اورانداز تحریر عصر حاضر کے تمام ادیبوں سے منفر د تھا ۔ یہاںیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اردو زبان آپ کے گھر کی لونڈی تھی لیکن افسوس کہ ہمارے اردوزبان و ادب کے مورخین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اردوزبان وادب کی ترقی و ترویج میں مولانائے مرحوم کا بھی اتنا ہی کارنامہ ہے جتنا کہ ان کے پیشرو ادیبوں کارہا ہے ے ۔اردو ادب کی تاریخ میں دو ٹکے کے ادیبوں اور شاعرووں کاذکرتوملتا ہے لیکن اس مایہ ناز ادیب اورانشاپرداز کاذکر نہیں ملتا جو اردو زبان بولتا ہی نہیں تھا بلکہ اردوالفاظ کے سکّے بھی ڈھالتاتھا ۔حال ہی میں حکومت سعودی عربیہ نے مولانا کی دینی خدمات اوراسلامی لٹریچر کی اشاعت پرانھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازاتھا ۔مولانا کی موت سے تحریک اسلام کے ایک عہد کاخاتمہ ہوتاہے ۔ اور ایک نئے دور کاآغاز ہوتا ہے جس کی بڑی ذمہ داری ہماری ملت کے نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے۔
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
(تاریخ اشاعت ستمبر 1979ءروزنامہ”انقلاب“ بمبئی)