نبی رحمت اور آزادی اظہار رائے

از:ثنا شاہد.فاضلہ معہد عائشہ الصدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند

دنیا کے دو ارب مسلمان کے لئے سب سے زیادہ مقدس محترم اور قابل تعظیم ہستی محمد عربی ﷺ کی ہے آپ ؐکی محبت مؤمن کا جز ایمان ہے خود نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ:تم سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا ہے جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین،اولاد اور بھائی بہنوں اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نا ہوجاؤں“اور کیوں نا اس عظیم ہستی سے محبت کی جائے جس نے عرب کے بدوؤں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا وہ جن پر کوئی حکمرانی کرنے کو تیار نہیں تھا انہیں اخلاق حسنہ اور تہذیب وشائستگی کا ایسا پیکر بنایا کہ دنیا نے ان کی مامت کو تسلیم کرلیا،نبی اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ اور آپ کی تربیت کا ہی کمال ہے کہ عرب جن کی زندگیوں میں کوئی تہذیب نہیں تھی جنہیں زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں تھاانہوں نے آپ سے تربیت پاکر دنیا کو تہذیب وشائستگی کا سلیقہ سکھانے کے ساتھ،تجارت سیاست، معیشت ہر میدان میں دنیا کو راستہ دکھلایا،آپ ﷺ کی تعلیمات اعلیٰ اور ارفع تعلیمات ہیں آپ نے ایسے اخلاق کی تعلیم دی جن کے ذریعہ دنیامیں محبت قائم ہوسکتی ہے،

آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو،پڑوسی،رشتہ دار،اعزہ اقرباء دوست احباب ہر کسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ اور ہر ایک کے حقوق بیان فرمائے آپ نے بتایا کہ معاشرہ کو صالح بنانے کے لئے ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی لازمی اور ضروری ہے اگر معاشرے کے کسی فرد کے بھی حقوق کی پامالی ہوگی تو صالح معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا،معاشرتی زندگی گزارنے کا جو سلیقہ نبی کریم ﷺ نے دنیا کو دیا وہ دنیا کی تہذیب میں موجود نہیں فرمایا کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق مت رکھو،فرمایا کہ جو تم رشتہ توڑے اس سے رشتہ جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو،جرائم کو روکنے کے لئے اور معاشرہ کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے ایسی سزائیں نافذ کیں اگر آج بھی ان سزاؤں کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تو ہمارے ممالک میں موجود جرائم پیشہ افراد کی تعداد نا کے برابر رہ جائے،کسی معصوم شخص کو ناکردہ جرائم میں ماخوذ نا کردیا جائے اس لے قضا کے نظام کے لئے ایسے اصول وضوابط بنائے جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔

گھریلو زندگیوں کو خوشگوار بنانے کے لئے میاں بیوی کے حقوق بیان فرمائے ایک دوسرے سے محبت کرنے کی تعلیم دی بیوی کو شوہر کی فرنبرداری اور اطاعت کا حکم دیا تو ہیں شوہر کو بھی عورت کے حقوق کی پاسداری کرنے کی تعلیم دی ضرورت تو اس بات کی تھی ایسی عظیم ہستی کی تعلیمات کو دنیا میں عام کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے،حکومتوں کے سربراہان ملک میں کو بد امنی اور بد سکونی سے بچانے کے لئے ان تعلیمات کو اپنے نصاب کا حصہ بناتے لیکن افسوس آج کی اسلام دشمن طاقتیں نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کا جانے بغیر آپ کے صفت رحمت سے واقفیت کے بغیر آپ کی شان اقدس میں گستاخی کررہی ہے مغرب کے متعصب مفکرین اور متعصب مؤرخین موقع بموقع آپ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں اور دنیا کے اسلام بیزار اور اسلام دشمن افراد اس کو آزادیئ اظہار رائے کا نام دیکر اس کو قبول کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ دو ارب مسلمانوں کی سب سے محبوب ہستی کی شان میں گستاخی کی جائے اور اس پر کوئی رد عمل نا ہو،جب کسی ملک کے صدر کی شان میں گستاخی آزدایئ اظہار رائے نہیں ہوسکتی،جب ہولوکاسٹ پر تحقیق آزادیئ اظہار رائے کے تحت نہیں آسکتی،جب صیہونی سازشوں پر مبنی فلم کی اشاعت آزادیئ اظہار نہیں ہوسکتی۔جب امریکہ کے قوم پرچم،قومی پرندے کی قید،عدلیہ اور دیگر بعض دفاعی اداروں پر بات کرنا آزادیئ اظہار رائے نہیں،جب کینیڈا کے قانون میں عیسائت کی توہین وتنقیص جرم ہے،جب ہندوستان کے قومی شعائر کو تنقید کا نشانہ بنانا آزادئی اظہار رائے نہیں تو پھر محمد عربی ﷺ جن پر پورے عالم کا مسلمان اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہے ان کی شان اقدس میں گستاخی آزادیئ اظہار رائے کیسے ہوگیا۔یہ ظلم اور نا انصافی نہیں ہے تو کیا یہ مغرب کی منافقت نہیں تو کیا ہے،مغرب کو سوچنا ہوگا کہ آزادی اظہار رائے کا دوہرا پیمانہ ہمیشہ فرانس جیسے واقعات کو جنم دیتا رہے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادی اظہار رائے کے حدود وقیود کو سب کے لئے یکساں رکھا جائے۔

یاد کیجئے 27/جنوری 2003کا دن جب ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا تھا،تو اسرائیل اور اس کے ہمنوا ممالک نے احتجاج کیا اور بالآخر اخبار کو معافی مانگنی پڑی،یاد کیجئے مراکش کے اس عالم دین کو جس نے تنگ اور چست لباس پر گفتگو کی تو پورا آسٹریلیا ان کے خلاف ہوگیا تھا،یاد کیجئے جب اٹلی کے وزیر اعظم نے حضرت عیسیٰ کے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا تھا،یاد کیجئے ہندوستان کے ایک مصور فدا حسین کو جسے اپنا ملک چھوڑنا پڑا ہے،اگر ان واقعات پر ہونے والا رد عمل دہشت گردی نہیں ہے تو پھر فرانس میں نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی پر ہونے والا رد عمل دہشت گردی کیسے ہوگا

۔اسلام اور مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ آزادی ئ اظہار رائے کہ دشمن ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو آزادیئ اظہار رائے کی تعلیم اسلام نے ہی دی ہے اسلام سے قبل لوگ حکمرانوں کے غلام تھے،ان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت تک نہ تھی،یونان کا کلیسا مقدس خدائی کا دعویدار تھا جس سے اختلاف رائے کا مطلب موت تھی،مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا،یہی اسلام ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے جو چاہے بول سکتا ہے،اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّین (دین میں کوئی جبر نہیں ہے)نبی اکرم ﷺ وَشَاوِرْہُمْ فِی الَامْر (کہ معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو)جیسے سنہرے اصولوں سے واضح کردیا کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کا حامی ہے لیکن اسلام اعتدال پسند ہے،فساد کے خلاف چنانچہ اسلام نے رائے کی آزادی کیساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ انسان رائے دینے میں حیوانوں کی طرف بے مہار نہیں بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود اور قیود کی پابند ہے۔چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید،انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگراں مقرر ہوتا ہے،ہر وقت۔اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا،کسی کی غیبت نہیں کرسکتا،کسی پر بہتان،الزام تراشی یا کسی کی ذاتی زندگی کے عیوب نہیں ٹٹول سکتا حتی کہ کس کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا۔

مشورہ اور آزادی اظہار رائے کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہمیں نبی رحمت ﷺ کی زندگی میں جا بجا ملتا ہے چنانچہ غزہ بدر،عزوہ خندق،غزوۂ احد کے قیدیوں کے سلسلے میں نہ صرف یہ کہ صحابہ کرام سے مشورہ کیا بلکہ ان کے مشورہ پر عمل بھی اس کے علاوہ بھی نبی رحمت ﷺ کی زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب کو مکمل آزادی اظہار رائے کا حق دیا۔ نبی رحمت کے ماننے والوں کو آزادی اظہار رائے کا دشمن قرار دینے والوں اصل آزادی اظار رائے یہی ہے جس کی تعلیم نبی رحمت ﷺ کے دین میں دی گئی ہے اور یہ آزادی اظہار تمہارے یہاں ناپید ہے۔

مغرب آزادی ئاظہار رائے کے جس خول میں بند ہے وہ منافقت سے پر اور انصاف سے بہت پرے ہے۔ہمیں آزادی اظہار رائے کا دشمن قرار دینے سے پہلے اپنے گریبان کو دیکھ لینا مفید ہوگا ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی