نئی دہلی:10اکتوبر(ای میل)پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے نئی دہلی میں واقع مرکز میں منعقدہ قومی مجلس عاملہ کے اجلاس نے کہا کہ حال کے مہینوں میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے کئی ایسے بظاہر آزاد خیال اور ترقی پسند فیصلے سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کا یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ یہ فیصلے یکساں سِول کوڈ کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔اکھِلا سے ہادیہ بنی ایک طالبہ کے تبدیلی¿ مذہب اور پھر ایک مسلم لڑکے سے اس کی شادی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے بے حد مو¿ثر فیصلہ دیا تھا۔ ہادیہ کی شادی رد ّکرنے کے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے، ۹ اپریل ۸۱۰۲ کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ”اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کا حق دستور کی وفعہ ۱۲ (زندگی اور آزادی کا حق) کا لازمی جزو ہے۔“ ملک کی موجودہ تاریخ میں ہم اسے ایک اہم ترین عدالتی مداخلت کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ اس نے عام شہریوں کے بنیادی حقوق کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے والی دائیں بازو کی طاقتوں کے خلاف لوگوں کے اس حق کی حفاظت کی ہے۔مذہبی معاملات میں حکومت کی مداخلت آئینِ ہند کی روح کے خلاف ہے۔ لہٰذا، ہر قوم کو اپنی مذہبی روایات اور پرسنل لا پر عمل کرنے کا پورا حق ہے۔ تاہم، کیرالہ کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے سے متعلق اور اسلام میں مسجد کے مقام پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ۴۹۹۱ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے متعلقہ اقوام کے مذہبی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔ ایک ایسے اہم وقت میں جبکہ ملک کو غیرقانونی طریقے سے قبضہ کرکے منہدم کی گئی بابری مسجد کے لیے انصاف کا انتظار ہے، اسلام میں مسجد کی ضرورت کے انکار سے کوئی مثبت پیغام نہیں ملتا۔ اس قسم کے فیصلے اس تشویش کو دوبالا کر دیتے ہیں کہ ایک فرقہ پرست حکومت ان کا غلط استعمال کر سکتی ہے، جیسا کہ اس نے سپریم کورٹ کا فیصلہ دکھا کر تین طلاق پر آرڈیننس پاس کر دیا۔ اس لیے سپریم کورٹ کو آگے بڑھ کر بالکل واضح موقف اختیار کرنا ہوگا کہ ایودھیا مسجد-مندر ملکیت کے معاملے میں دستاویزات اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا نہ کہ کسی مذہبی یقین کی بنیاد پر۔ چند بے ایمان لیڈران بار بار اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر ہر حال میں بنے گا۔ لہٰذا اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے میںا یک واضح موقف اختیار کرنا عدالتِ عظمیٰ کی اہم ذمہ داری ہے۔ہم جنس پرستی اور زنا کو قانونی جواز فراہم کرنے کے فیصلے میں شخصی آزادی اور پرائیویسی کی حفاظت کا دعویٰ کیا گیا۔ اس کا یہ مطلب بیان کیا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اُنہی جائز اقدار و نظریات کو دوہرا رہی ہے، جو پہلے بھی خاندانی و دیگر سماجی نظاموں کے زوال کا سبب بن چکے ہیں۔ جبکہ آدھار پر حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیتے وقت اسی شخصی آزادی اور پرائیویسی کی حفاظت کے سلسلے میں کوئی جوش دیکھنے کو نہیں ملا۔ فیصلے میں اس بات کا خیال نہیں کیا گیا کہ ہر شہری کے حقوق اور حکومتی فلاحی اسکیموں اور خدمات کو آدھار سے جوڑنے سے آنے والے دنوں میں کتنا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ گرچہ حال کے بیشتر فیصلے آزاد خیالی اور ترقی پسندی جیسی باتوں سے مزیّن انتہائی سطحی زبان میں سنائے گئے، لیکن اس کے دوررَس نتائج بے حد خطرناک ہوں گے جن سے فرد ، خاندان اور سماج تباہ ہو کر رہ جائیں گے۔پاپولر فرنٹ کی قومی مجلس عاملہ نے سپریم کورٹ کے اس عزم کی ستائش کی کہ دستور ہند اور اس کی اقدار ہی اعلیٰ ہیں۔ اجلاس نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ برسرِ اقتدار طاقتوں کے ذریعہ ہمارے دستور کی جمہوری و سیکولر بنیادوں کو متاثر کرنے کی اعلانیہ باتوں اور خفیہ چالوں کا سلسلہ جاری ہے، سپریم کورٹ کے اسی اَٹل دستوری موقف سے ملک کی امید وابستہ ہے۔تنظیم کی مجلس عظمیٰ کے تین روزہ اجلاس میں ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی حالات پر بحث کی گئی۔ اجلاس نے مختلف ریاستوں میں تنظیمی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیا۔ جھارکھنڈ میں پابندی کے بعد ریاست کے تنظیمی لیڈران و کارکنان نے جس عزم و حوصلے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ اجلاس نے پابندی ہٹانے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کی ستائش کی اور جھارکھنڈ حکومت سے ریاست میں آزادی¿ تنظیم کے حق کو یقینی بنانے کی اپیل کی۔ اس کے علاوہ ۹۱-۸۱۰۲ کے تعلیمی سال میں بارہویں پاس طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیمی وظائف کے طور پر دی جانے والی رقم کے لیے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپئے مختص کرنے کی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے شعبے کی تجویز کو منظور دی گئی۔چیئرمین ای ابوبکر نے اجلاس کی صدارت کی۔ نائب چیئرمین، او ایم اے سلام، جنرل سکریٹری ایم محمد علی جناح، سکریٹری عبدالواحد سیٹھ، انیس احمد و دیگر ارکانِ قومی مجلس عاملہ نے اجلاس میں شرکت کی۔