پیغام شہدائے کربلا سے روگردانی اور نفس پرستی نے  امت مسلمہ کو زوال کی راہ سے دوچار کیا

از:غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاو¿ں

ہم امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتے ہیں۔ ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ جس کے متعدد اسباب ہیں۔ آپ نواسہ¿ رسول ہیں۔ میرِنوجوانانِ فردوس ہیں۔ صحابیت کا شرف حاصل ہے۔ خلیفہ¿ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منظورِ نظر ہیں۔ اِس لیے آپ کی ذات عظمتوں کی منزل پر فائز ہے۔ آپ کی حیات نمونہ ہے۔ آپ کی خدمات مشعلِ راہ ہیں۔ آپ کی حیات کا ہر لمحہ محفوظ ہے۔ نسبت بارگاہِ رسالت کا ایسا فیضان ہے کہ؛ آپ کی ذات ایک انجمن ہے۔ تاقیامت رہبر و رہنما ہے۔
تحفظِ شریعت: امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی اطاعت تسلیم نہ کی۔ اس کا سبب کیا تھا؟ یہی کہ یزید فسق و فجور کو راہ دے رہا تھا۔ دین میں ملوکیت کی بنیاد ڈال رہا تھا۔اسلام کے جادہ¿ اعتدال سے منحرف تھا۔ دین کے کامل چہرے کو دھندلانے کے درپے تھا۔ عظیم والد کی تعلیمات سے بغاوت کر رہا تھا۔ قیصر و کسریٰ کے باطل طرز کو اسلام میں رائج کر رہا تھا۔ شراب و برائیوں کا پرچارک تھا۔ غیر شرعی امور کی تائید میں منہمک تھا۔ بُرے کردار کا حامل تھی۔ بری خصلتوں کا شیدائی تھا۔ شراب و شباب سے انسیت رکھتا تھا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ پاکیزہ تھے۔ آغوشِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ تھے۔ دین کے محافظ تھے۔ قدر دانِ شریعت تھے۔ پاسبانِ اسلام تھے۔ محافظِ حدودِ شرع تھے۔ اس لیے دین کے معاملے میں مداہنت کیوں کر برداشت کرتے! آپ نے یزیدی اطاعت کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ حق کیا۔ اسے دینی اقدار کی طرف لوٹ آنے کی تعلیم دی۔ اسے درسِ عزیمت دیا۔ لیکن وہ باز نہ آیا۔ یزیدی فکر میں شر تھا؛ اس لیے خیر کی دعوت سے منحرف رہا۔
امام حسین نے یزیدی طاعت سے بیزار مسلمانوں کی دل جوئی کے لیے سفرِ کربلا اختیار کیا۔ انھیں ظالم کی بیعت سے بچانے اور ایسی پاکیزہ بیعت کے لیے کربلا تشریف لے گئے؛ جو رسول اللہ کی بارگاہ سے متصل تھی۔ جس بیعت کے ذریعے شریعت پر استقامت کا پیغام مل رہا تھا۔ جس بیعت کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں دین کے اصول عزیز ہیں۔ ہمیں کسی فاسق و فاجر کی اطاعت منظور نہیں۔ہمیں تو شریعت مصطفی پیاری ہے۔
پیغام شہادت: تاریخ انسانی میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ آمریت نے فطری قوانین سے بغاوت کی۔ اورخواہشات کی بالادستی کی کوششیں کیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان -انسان کا غلام بن گیا۔ امام حسین نے انسانیت کی باگ اطاعتِ بارگاہِ الٰہی کی طرف موڑ دی۔ یہ درس دے دیا کہ ہمیں صرف اسلامی قوانین پر استقامت اختیار کرنی ہے۔ کسی باطل ضابطے کے آگے سر نہیں جھکانا ہے!! ظالم کی اطاعت قبول نہ کی جائے۔ ایسی مصالحت ضمیر کی شکست ہے۔ ہاں! سر دے کر دینی حدود کی حفاظت حقیقی فتح ہے۔ شہادتِ امام حسین و شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم سے دین کی فتح ہوئی۔ ظالم کی اطاعت کی کوئی مثال قائم نہ ہو سکی۔ استبداد دَم توڑ گیا۔ آج امام حسین زندہ ہیں، یزید مرگیا۔ آج حسینیت موجود ہے، یزیدیت شکست سے دوچار ہے۔ آج اسلام کا نکھرا چہرا موجود ہے، یزید کا مکروہ کردار بے نقاب ہو چکا۔ آج برائیوں کے خلاف قوانین اسلام تازہ ہیں، یزیدی برائیاں ذلت سے دوچار ہیں۔
برائیوں کا رواج: ہم حسینی ہیں۔ ہم شہدائے کربلا سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کے نام لیوا ہیں۔ ان کی یاد مناتے ہیں۔ نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ان سے محبت کے تقاضے پورے کریں؟ ان کی شہادت کے مبارک دن کو مبارک طریقے سے منائیں۔ ان کی یاد میں غریبوں کو کھلائیں۔ ان کی یاد میں پانی و شربت پلائیں۔تشنگی بجھائیں۔لیکن افسوس کہ اب برائیوں کو ان سے محبت کے نام پر رواج دیا جا رہا ہے۔ یزیدسے دشمنی اور یزیدی فعل کی انجام دہی! تاسف!! ہم نے سالِ گزشتہ نوری مشن کی طرف سے یومِ عاشورہ پر ترجمہ¿ قرآن کنزالایمان کی مساجد میں تقسیم کے لیے شہر کا دورہ کیا! امام حسین سے محبت کا دعویٰ کرنے والے بعض افراد کے اعمال نے سخت تکلیف سے دوچار کیا۔ نمازوں کا لحاظ نہیں۔ ڈھول والی آڈیو دھوم سے جاری ہے! پھر بھی دعویٰ کہ حسینی ہیں!! داڑھیاں غائب ہیں! اور برائیاں شباب پر،پھر بھی دعویٰ کہ حسینی ہیں!! ہم نے محرمی میلوں کا مشاہدہ کیا کہ پردے کا لحاظ نہیں! اہل بیت کی صاحب زادیوں کا کربلا میں یہ حال کہ آسماں نے بے پردہ نہ دیکھا، یزیدی ظلم بھی پردے کو ختم نہ کر سکا اور آج یہ عالم کہ بے پردگی وہ بھی شہدائے کربلا کے نام پر!پھر بھی دعویٰ کہ حسینی ہیں!! ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ یاد امام عالی مقام کی بجائے میلے سجائے جا رہے ہیں!پھر بھی دعویٰ کہ حسینی ہیں!! ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ جن برائیوں کے خلاف اسلاف بالخصوص امام احمد رضا و ساداتِ کچھوچھہ مقدسہ و مشائخ سلاسل طریقت نے فتاوے دیے، ان برائیوں کو پھیلایا جا رہا ہے اور اسلاف کے فتاوے پسِ پشت ڈال دیے گئے!پھر بھی دعویٰ کہ حسینی ہیں!! ذکر شہید اعظم کی محفلوں کی جگہ میلے ٹھیلے؛ خوب سجاوٹ، دوکانیں، خریدو فروخت، خواتین و مردوں کی بے ہنگم بھیڑ! پھر بھی دعویٰ کہ حسینی ہیں!!پیشہ ور مقرروں نے تو بجائے اصلاح کے اِن میلوں کے قیام کی تگ و دو کی،غیر تحقیقی روایات بیان کر کر کے شہادت کے پیغام کو بھلا دیا۔ ان کی جدوجہد یہی ہے کہ ہمارا موسم بنا رہے، اگر میلے نہیں رہیں گے، سنجیدگی رہے گی تو دوکان کیسے چلے گی!! ایسے افراد کو اسلاف کے طرزِ زندگی سے سبق لینا چاہیے، زندگی اللہ کی رضا کے لیے گزاریں گے تو حسینی نسبت بھی سلامت رہے گی اور قوم کی اصلاح و فلاح کا فریضہ بھی انجام پذیر ہوگا۔ یاد رکھیں نجات صرف شریعت پر استقامت میں ہے؛ اسی کا درس شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے
شہنشاہ شہیداں ہو انوکھی شان والے ہو
حسین ابن علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے
Leave a comment