مفتی وقاضی سلیمان رحمانی (امام و خطیب مسجد بارہ امام کھڑکپورہ ناندیڑ)
محترم قارئین کرام اسوقت تمام ہی حجاج کرام جو اس سال سفر حج کی آدائیگی کیلئے بیت اللہ شریف تشریف لے گئے تھے حج کی آدائیگی سے فارغ ہوکر تشریف لارہے ہیں،چند دن قبل حاجیوں کے سفر حج پر جانے کا سلسلہ جاری تھا لیکن اب واپسی کا سلسلہ جاری وساری ہیں،حج اسلام کے چار ارکان میں سے ایک عظیم ترین رکن اور عشقیہ عبادت ہے،یہ عبادت ایسی جگہ اداکی جاتی ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی توجہات اور اسکی تجلیات اور انوار کا مرکز ہے،حدیث پاک میں آیاہے کہ بیت اللہ شریف جس جگہ قائم ہے بعینہ اس کے اوپر ساتویں آسمان میں بیت المعمور قائم ہے،اور پھر بیت المعمور کے بالکل اوپر عرش الہی ہے ،وہیں سے حق تعالیٰ شانہ کی توجہات اور اسکے انوارات و تجلیات کا نزول سب سے پہلے کعبتہ اللہ پر ہوتا ہے،پھر وہاں سے اسکی شعائیں پوری دنیا میں پھیلتی ہیں،اسلئے وہاں کی حاضری مسلمانوں کیلئے سب سے بڑی سعادت ہے،یہ عاشقانہ عبادت اور وہاں کی حاضری صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے،جنہوں نے سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کے اعلان حج پر لبیک کہاہو،اور جس نے جتنی بار لبیک کہا ہے اسکو اتنی مرتبہ حاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہے گی ،
درج ذیل چند باتیں خصوصاً حاجی حضرات کیلئے ہیں اور عموماً سارے ہی مسلمانوں کیلئے سپرد قیاس کی جارہی ہیں۔
مقصد حج تقوی ہے!
تقوی دراصل ہر عبادت کی جان اور اسکی روح ہیں،اس کے بغیر نہ کوئی عبادت ،عبادت کہلانے کی مستحق ہے اور نہ عنداللہ مقبول ہی ہے ،حضرت آدم ؑ کے بیٹے قابیل کی قربانی اسی لئے تو بارگاہ خداوندی میں مقبول نہ ہوئی کیونکہ اسکے پیچھے تقوی کا جذبہ کار فرما نہ تھا۔ تقوی رسمی دینداری یاظاہری داری کانام نہیں ہے بلکہ وہ دل کی اس کیفیت کا نان ہے جو بندے پر خدا کا کوف طاری کرتی ،اس کے احکام کی بجاآوری کیلئے اسے آمادہ کرتی اور مومن کی زندگی کے تمام تر گوشوں کو دور دور تک سیراب کرتے ہیں ۔آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اس حقیقت کو کھول کر بیان فرمایا ۔آپ نے تین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (تقوی یہاں ہوتا ہے ۔آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمائی )اگر دل میں تقوی رچ بس گیا ہوتو اعضاءو جوارح سے اسکا پورا پورا ظہور ہوتا ہے ایسا شخص ہر حال میں اور ہر شعبہ زندگی میں اللہ کے احکام کی پابندی کرتا ہے وہ حدود بندگی سے تجاوز نہیں کرتا ،اور اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کا کوئی قدم اللہ کی نافرمانی کی سمت اٹھنے نہ پائے۔جو کام بھی اللہ کی نافرمانی کے ہیں ان سے وہ اس طرح بچ کر چلتا ہے جس طرح کانٹوں سے دامن بچاتا ہے وہ فسق و فجور کے جھاڑ جھنکاڑ میں اپنا دامن الجھنے نہیں دیتا۔بلکہ نیکی کی صاف اور سیدھی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔دل کا تقوی اسے فکر و نظر کی پاکیزگی عطا کرتا ہے اسکی عقل کو جلا بخشتا ہے،اور اسکی اخلاقی و عملی زندگی میں نکھار پیدا کردیتا ہے۔حج ودیگر عبادتیں تقوی کی پرورش کا سامان ضرور ہیں،لیکن اگر دل تقوی سے خالی ہوتوساری دینداری محض رسمی دینداری بن کر رہ جاتی ہیں۔اللہ کے پاس پسندیدہ اور قابل قدر صرف وہ اعمال ہیں جن کے اندر تقویٰ کی روح کارفرماہو۔
حج کے اثرات!
سورئہ بقرہ میں حج کے احکام بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومن کا یہ کردار نمایاں کیا ہے ،اللہ تعالی نے سورئہ بقرہ میں ارشادفرمایا (کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کھپادیتے ہیں اور اللہ ایسے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ائے ایمان والو! پورے پورے اسلام میں داخل ہوجاﺅ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروری نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلاہوا دشمن ہے)اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک صاحب ایمان حج کا جو اثر قبول کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی رضائے الہی کی طلب میں کھپادیتا ہے ۔اور اسلام کی مکمل پیروری کرتا ہے۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی خواہ اس کا تعلق اخلاق ،کاروبار،تجارت،معاشرت،تہذیب یا سیاست سے ہو،اللہ کے احکام سے روگردانی نہیں کرتا بلکہ اس کی پوری زندگی اسلامی زندگی ہوتی ہے اور وہ اس دین کی اشاعت و تبلیغ اور اسکی نصرت و تائید کرتے ہوئے اسے عملاً برپا کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے اور ہر ایسے قوم و عمل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ کو ناراض اور شیطان کو خوش کرنے والا ہے ۔مسلمان جب حج سے واپس آتا ہے تو اپنے قلب میں ایسی کیفیت لے کر آتا ہے جو اس کی زندگی میں مقدس چراغ کی مانند ہوتی ہے جو اس کے قلب کو روشن رکھتی ہے اس سے اس کے دل میں اپنے پررودگار کیلئے وارفتگی ،امت اسلامیہ کے تمام افراد سے اخوت و محبت اور اپنی طرف سے ہمہ وقت بندگی کا احساس جاگزیں ہوجاتا ہے جوایک مشعل کی طرح اس کے رجحانات و جذبات کو منور رکھتا ہے۔
حج سے گناہ معاف ہوتے ہیں!
آقاﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی کیلئے حج کرئے اور حج کے درمیان فحش گوئی سے بچے اور نافرمانی نہ کرئے تو وہ ایسا بے گناہ ہوکر لوٹیگا، جیسے وہ اس دن بے گناہ تھا جس د ن اسکی ماں نے اس کو جنا تھا، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں منیٰ کی مسجد میں حاضر تھا کہ دو شخص ایک انصاری اور ایک ثقفی حاضر خدمت ہوئے اور سلام کے بعد عرض کیا کہ حضور ہم کچھ دریافت کرنے آئے ہیں۔آقاﷺ نے فرمایا کہ تمہارا دل چاہے تو دریافت کرو اور تم کہو تو میں بتادوں کہ تم کیا دریافت کرناچاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہی ارشاد فرمادیجئے،آقاﷺ نے فرمایا کہ تم حج کے متعلق دریافت کرنے آئے ہوکہ حج کے ارادے سے گھر سے نکلنے کا کیا ثواب ہے ؟اور عرفات پر ٹہرنے اور شیطان کو کنکریاں مارنے کا اور قربانی کرنے اور طواف زیارت کرنے کا کیا ثواب ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ اس پاک ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو نبی بناکر بھیجا ہے یہی سوالات ہمارے ذہن میں تھے آپ ﷺ نے فرمایا حج کا ارادہ کرکے گھر سے نکلنے کے بعد تمہاری سواری اونٹنی جو ایک قدم رکھتی یا اٹھاتی ہے وہ تمہارے اعمال میں نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور طواف کے بعد دورکعتوں کا ثواب ایسا ہے جیسا ایک عربی غلام کو آزاد کیا ہو،اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا ثواب ستر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہے اور عرفات کے میدان میں جب لوگ جمع ہوتے ہیں ۔(اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترکر فرشتوں سے فخر کے طور پر فرماتا ہے کہ میرے بندے دور دور سے پراگندہ بال آئے ہوئے ہیں۔میری رحمت کے امیدوار ہیں۔اگر تم لوگوں کے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یابارش کے قطروں کے برابر ہوں یاسمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔تب بھی میں معاف کردونگا ۔ میرے بندو جاﺅ بخشے بخشائے چلے جاﺅ،تمہارے بھی گناہ معاف ہیں اور جس کی تم سفارش کرونگے انکے بھی گناہ معاف ہیں، اسکے بعد حضور ﷺ نے فرمایا کہ شیطانوں کے کنکریاں مارنے کا حال یہ ہے کہ ہر کنکرکے بدلے ایک بڑا گناہ جو ہلاک کردینے والا ہو معاف ہوتا ہے۔ اور قربانی کا بدلہ اللہ کے یہاں تمہارے لئے ذخیرہ ہے اور احرام کھولنے کے وقت سرمندانے میں ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے ،اس کے بعد جب آدمی طواف زیارت کرتا ہے تو ایسے میں طواف کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا اور ایک فرشتہ مونڈھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کرکہتا ہے کہ آئندہ ازسر نواعمال کر ،تیرے پچھلے سب گناہ معاف ہوچکے ہیں،
حاجی کہلانے کیلئے حج نہ کریں !
نام ونمود یا حاجی کہلانے کیلئے حج نہ کریں ،اگر کسی نے اپنے آپ کو حاجی کہلانے کیلئے حج کیا ہو تو اس کی یہ عبادت قبول نہ ہوگی اور اسکو کچھ ثواب بھی نہیں ملیگا،اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں بیٹھتے ہیں اپنے کے تذکرے کرتے ہیں، اور واقعات مبالغہ سے بیان کرتے ہیں ،اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں پر انکا حاجی ہونا ظاہر ہوجائے ۔کبھی اپنے سفر خرچ کو بیان کرتے ہیں ،کبھی صدقہ و خیرات کو جتاتے ہیں،حالانکہ یہ سب چیزیں ثواب کو کھونے والی ہیں ۔حالانکہ اللہ نے کفار کی اس صفت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا(کہ کافر خرچ کر کے گاتا پھرتا ہے کہ میں نے مال کے ڈھیر خرچ کردیئے)
حج کا تذکرہ ہر کسی سے نہ کریں !
حج کا تذکرہ ہر ایک شخص سے نہیں کرنا چاہیئے ۔کیونکہ تذکرہ میں اندیشہ ہے ریا اور فخر پیداہونے کا اور ریاءفخر کی نیت سے کرنا تو برا ہے ہی۔لیکن بعض محققین صوفیا ءکرام تو بعض اوقات ایسے تذکرے کو بھی منع کرتے ہیں۔جو بظاہر طاعت معلوم ہوتے ہیں مثلاً وہاں کے محاسن اور فضائل بیان کرنا جس سے وہاں جانیکا شوق اور رغبت پیدا ہو۔ محققین کہتے ہیں کہ لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں،(۱)وہ جن پر حج پر فرض ہے انکے سامنے تو تر غیببی مضامین بیان کرنا جائز ۔بلکہ مستحب ہے،(۲)وہ لوگ جن پر حج فرض نہیں ہے لیکن ان میں حج کی طاقت اور گنجائش ہے اور انکو حج کرنے کیلئے جانا منع بھی نہیں ہے،ان کے سامنے بھی حج کے تذکرے کرنا جائز ہے،(۳)وہ لوگ جن پر حج فرض نہیں ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن میں مالی استطاعت نہیں اور مشقت پر صبر و تحمل کی بھی قدرت نہیں ایسے لوگوں کے سامنے ایسے واقعات بیان کرنا کہ جن سے انکو حج کا شوق پیدا ہو جائز نہیں کیونکہ انکو اس سے حج کا شوق پیدا ہوگا،اور ان کے پاس سامان ہی نہیں ،نہ ظاہری نہ باطنی ،تو خواہ مخواہ پریشانی میں مبتلا ہونگے ۔جس سے ناجائز امور میں مبتلا ہوجانیکابھی اندیشہ ہے،
سفر حج کی تکالیف ہرگز بیان نہ کریں !
بعض لوگ سفر حج کی تکالیف لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیئے،چاہے تکالیف واقعةً پیش کیو نہ آئی ہو۔ اس قسم کے واقعات بیان کرنے سے بہت سے لوگ حج سے رک جاتے ہیں اسکا گناہ انہی لوگوں کو ہوگا جنہون نے ان کو اس قسم کے واقعات سنائے اور وہ ڈر گئے۔ اور پھر بہت سے لوگ تو واقعات میں حد سے زیادہ مبالغہ کرتے ہیں جو سخت گناہ ہے ۔سفر حج ایک طویل سفر ہے جس میں حاجی کو بہت ساری گاڑیاں تبدیل کرنی پرتی ہیں،پھر جہاں حاجی صاحبان جارہے ہیں وہ انکے کیلئے ایک اجنبی ملک ہیں ، وہاں کی زبان اجنبی ہیں ،ایسی صورت میں تکالیف کاپیش آنا ظاہر ی بات ہیں ،مگر باوجود ان سب باتوں کے خدا کا فضل ہے کہ حجاج کرام کو بہت کم تکالیف پیش آتی ہے اور آقاﷺ نے کا ارشاد بھی ہے کہ سفر مشقت سے خالی نہیں ہوتا ہے۔اس لئے وہاں کے واقعات ایسے طرز پر بالکل بھی بیان نہ کریں جس سے دوسروں کی ہمت ٹوٹ جائے،اور وہ حج کرنے سے رک جائےیں،
حج کے بعد اعمال صالحہ میں مزید اضافہ کردیا جائیں!
حج کے مقبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد اعمال صالحہ کا اہتمام اور پابندی زیادہ ہوجائے ،دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت بڑھ جائے اور پہلی حالت سے بہتر حالت ہوجائے ،اس لے حج کے بعد اپنے اعمال و اخلاق کا خاص طور سے خیال رکھنا چاہیئے ،اور طاعت و عبادت میں خوب سعی کرنی چاہئیے ،معصیت اور اخلاق رذیلہ سے نفرت اور اجتناب کرنا چاہیئے۔
آخیر میں ہم اللہ رب العزت سے دعا گوں ہیں کہ جن حضرات نے امسال حج کیا ہے ان تمام کے حج کو قبول فرمائے۔آمین