٭ پروفیسرانیس قمر کے سانحہ ارتحال پراپنے گہرے رنج و ملال کااظہار کرتے ہوئے علامہ اعجاز فرخ نے کہا کہ اردودنیا اپنے ایک مایہ ناز سپوت سے محروم ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ پروفیسرانیس قمر ایک صرف ایک ادیب ‘محقق ‘استاد اور مقرر ہی نہیںبلکہ ایک علم دوست آگہی شعاراور جستجوپسند شخصیت بھی تھے ۔ کسی بھی فرد کے تعارف کی کےلئے اسکی گفتگو اور زبان اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ پروفیسر انیس قمر کے لب ولہجے میں توازن اورگہرائی اُن کی سنجیدہ مزاجی اورمتانت کاثبوت تھی ۔ وہ ایک خلیق اور مہربان شخص تھے ۔اہل دل کی محفل میں اب شاید ہی اُن جیسا مخلص مسند آرا ہوسکے ۔علامہ نے اُن کےلئے مغفرت کی دُعا کے ساتھ اُن کے پسماندگان کو صبرجمیل عطافرمانے کی دعا کی اور کہا کہ اللہ اُن کے درجات عالی فرمائے اور اُن کو مغفورین میںشمار فرمائے ۔

علامہ اعجازفرخ‘حیدر آباد
سن 2018‘ستمبر 19‘شام قبل ِغروب
………………………………….
٭صبح کی اولین ساعتوںں میں موبائل کی گھنٹی بجی۔د کی کی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے موبائل کو اُٹھایا۔ ناندیڑ سے ڈاکٹرایم اے بصیر نے اطلاع دی ۔ڈاکٹرانیس قمر نے رات دو بجے داعی اجل کو لبیک کہا ۔
انا اللہ و اناعلیہ راجعون
ڈاکٹرانیس قمر تندرست تھے ۔ لیکن کچھ عرصہ سے خون کے دباو¿ کی وجہ سے پریشان تھے ۔ 31مارچ 2018ءکو ریٹائرمنٹ کے بعداُن کی لڑکی کی شادی میں اُن سے آخری ملاقات ہوئی ۔ ڈاکٹرانیس قمر اور میں نے 19/7/1993 کو سہ پہر چاربجے یشونت کالج ناندیڑ شعبہ اردو جوائن کیا ۔ 15ڈسمبر 2016ءکو تو بہ حیثیت پرنسپل اقراءکالج جوائن کرنے تک ہم اردو شعبہ میں ساتھ رہے ۔ ڈاکٹرانیس اور میں نے شعبہ اردو یشونت کالج میں 23سال کام کیا مجھے اس بات کی خوشی ہیکہ ڈاکٹرانیس قمر نے شعبہ اردو کےلئے اپنی گرانقدر خدمات انجام دیں۔میرے شعبہ سے جانے کے بعدبہت مختصر عرصے کے لئے وہ صدرشعبہ کی روایات کو آگے بڑھایا ۔ڈاکٹرانیس قمر کاانتقال میراذاتی نقصان ہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے فون پر گفتگو کے دوان انہوںنے مستقبل کےلئے کچھ منصوبوں کاتذکرہ کیاتھا ۔ جو میری بھی دلچسپی کاباعث تھے ۔وہ اچھے مقرر تھے ۔ ابتداءمیںانکے سیاسی مراسم بھی تھے ۔ مگربعد میں انہوں نے اسے ترک کردیا اورسیاسی جلسوں میںتقریرتک اپنے آپ کومحدود کردیا ۔ وہ مولانا آزادمشن ناندیڑ کے بانی تھے ۔جس کے ذریعہ انہوں نے مختلف پروگرام کے سمیناروں میںشرکت کی ۔کتابیں لکھیں‘مشاعرے پڑھے ‘ڈراموں میں کام کیا ‘ ڈرامے ڈائریکٹ کئے ۔نجی زندگی کے مسائل کو کبھی انہوں نے اپنے پیشہ پرحاوی نہیںہونے دیا۔ڈاکٹرانیس قمر چین اسموکر تھے ۔ میں ان کی اسی عادت سے نالاں تھا میں انہیں اس کے اثرات سے ڈرانے کی کوشش کرتا ۔ وہ ہنس کر ٹال جاتے اور دلیل دیتے کہ جو سگریٹ نہیںپیتے کیاوہ موت سے ہمکنار نہیں ہوتے ۔ناندیڑشہر کی سیاسی شرارتوں میں کہیں نہ کہیں ڈاکٹر انیس قمر کاہاتھ ضرورہوتا ۔ دوسرے دن کالج میں انہیں اس کی مبارکباد دیتا وہ خوشی خوشی قبول کرتے کہ ہاں اس میں میرا ہاتھ رہا ہے ۔ انھوں نے تدریسی پیشہ کو سنجیدگی سے نہیں لیامگر وہ بہت اچھے استاد تھے ۔ موڈ میں ہوتے توجم کر پڑھاتے ۔ نہ ہوتے تو کسی بہانے غصہ ہوکر کلاس برخوات کرلیتے ۔ طلباءو طالبات مجھ سے شکایت کرتے میں ہنس کر ان کی کلاس لے لیتا ۔صدرشعبہ اردو کی حیثیت سے جو بھی کام میں انہیں دیتا وہ اعتراض نہیں کرتے ۔ بعد میں شکایت کرتے ۔یار تم نے میرا ٹائم ٹیبل صبح کا رکھاہے ۔مجھے صبح اٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے ۔میں جواب دیتا سرآپ جلد آئےے گھر جلد جائےے اورناندیڑ میں سرگرمیاں جاری رکھے ۔کالج میں کامرس فیکلٹی کے لیکچررس ان کے بہت اچھے دوست تھے ۔ پروفیسر اے۔ بی۔ پاٹل ‘ ڈاکٹراین بی جادھو ‘ ڈاکٹردانوے سر ‘ڈاکٹراجئے گوہانے ‘ ڈاکٹر جورکر ‘ ڈاکٹرسوریہ ونشی سے ان کی بحیثیں ہوتیں ۔ اسٹاف روم کے ماحول کوگرمانے میںڈاکٹرانیس قمر اور میرا ہاتھ ہوتا ۔ کچھ سینئر لیکچررس نے ہم میںدراڑڈالنے کی بہت کوشش کی مگر ہم دونوں نے ان کے چال کوناکام کردیا ۔ مصلحت کے تحت اختلافف کا ڈھونگ کرتے اور اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ۔مختصر وقفہ کے لئے وہ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس ویلفیئر کے ڈائریکٹر بھی رہے ۔اُن دنوں پروفیسر منور علی رضوی ناندیڑڈویژن کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن تھے ۔ انھوں نے مجھ سے کہا” دوسال کےلئے جزو قتی لیکچرر کھ لو ‘کسی غریب کافائدہ ہوگا ۔ میںنے صاف انکار کردیا ۔کیونکہ مجھے معلوم تھاڈاکٹر انیس قمر لاپرواہ انسان ہیں ۔ بہت دیرتک اسے برداشت نہ کرسکیں گے اور وہی ہوا ۔2004 میں NAAC کے بہانے ہم نے ان کوشعبہ میں واپس بلا لیا ۔ورنہ ان کا بہت نقصان ہوجاتا ۔ بعد میں پروفیسرمنورعلی رضوی نے اس کاتذکرہ ڈاکٹرانیس قمر سے بھی کیا ۔اس کے بعد ہمارے تعلقات مستحکم ہوگئے۔ پوسٹ آفس کی جزوقتی ملازمت سے شعبہ اردو یشونت کالج نا ندیڑ تک کاڈاکٹر انیس قمرکا سفر بہت کٹھن رہا ۔معاشی مسائل بھی رہے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اسے پیشانی پر نہیں سجایا ۔ آبائی مکان سے منتقلی کے بعد امن پلازہ ‘دیپ نگر ناندیڑ میں انہوں نے فلیٹ خریدا اور میرے پڑوسی ہوگئے ۔میںوہاں پہلے سے اپنے ذاتی مکان میں رہ رہا تھا ۔ڈاکٹرسجاداحمدخان ‘ڈاکٹرارشاداحمدخان ‘ ڈاکٹر کرانتی شرما اور میں کبھی کبھار ملتے۔کیونکہ انیس سر زیادہ تر گھرسے باہر رہتے بعد میں انہوں نے اسلام پورہ دیگلور ناکہ میں ذاتی مکان خریدا ۔ جہاں انہوں نے آخری سانس لی ۔
ایڈ وکیٹ رحمن صدیقی ‘ آفتاب روپانی ‘ زماں خاں ‘سعید(نوٹری)‘سطان ‘فیروز رشید ان کے قریبی ساتھیوں میں تھے ۔ ڈاکٹر فہیم صدیقی ‘یونس فہمی‘محمدتقی سے وہ قریب تھے ۔محمدشاہد ایڈوکیٹ وصحافی ‘مرزافیاض بیگ ] قاضی نیاز الدین ایڈوکیٹ‘ ان کے چہیتے شاگرد رہے ہیں ۔محمدحاجی اور ایڈوکیٹ سعید ان کے ہر پروگرام میں ضرور شرکت کرتے ۔ میں ان کے اہل خاندان کے غم کودورتو نہیں کرسکا ۔ مگر میں ان کے غم میں شریک ہوں ۔ خدامغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

پروفیسرسیدشجاعت علی
پرنسپل تھم کالج ‘جلگاو¿ں
……………………………………..
٭میرے خلوص منددوست انیس الحق قمر کے اچانک انتقال سے مجھے ذاتی طور پر صدمہ پہونچا ہے ۔وہ ایک باصلاحیت ادبی اورسماجی شخصیت کے مالک تھے ۔ انھیں تقریر اور تحریر دونوں پر بیک وقت مَلکہ حاصل تھا ۔میں نے اُن کے ادبی مضامین پڑھے ہیں یہ مضامین اردو زبان وادب کے سرماے میں اضافہ ہیں جن سے آئندہ نسلیں فیض پاتی رہیں گی ۔پرور دگارِ عالم سے دُعاگو ہوں کہ وہ انیس قمر کے درجات کو بلند کرے اوراپنی جوارِ رحمت میںجگہ عطاءکرے ۔ میں اُن کے پسماندگان کے غم میں برابر شریک ہوں خدا اس نازک وقت میں انھیں صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین۔
محمدشفیع احمدقریشی‘سابقہ ڈپٹی میئر
ناندیڑواگھالہ شہر میونسپل کارپوریشن ‘ناندیڑ
٭ڈاکٹرانیس الحق قمر کی ناگہانی موت کی اطلاع جس کسی کو ملی وہ اپنی جگہ پرکچھ دیر کیلئے ساکت ہوگیا ۔کسی کو کیا خبر تھ کہ اپنی ملازمت سے سبکدوشی کے چند ماہ بعد ہی وہ اپنی حقیقی زندگی کے شب و روز سے ہمیشہ کیلئے سبکدوش ہوجائے گا۔ علاقہ مراٹھواڑہ کے عصرحاضر کے باکمال فنکاروں میں ناندیڑ شہر کے جواں سال ‘محقق ‘تنقیدنگار ‘ڈرامہ نگار ‘ شاعر اور معلم کی حیثیت سے ڈاکٹرانیس الحق قمر کانام تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ وہ ہرعلمی میدان کے شہ سوار تھے ۔ قومی‘ ادبی سمیناروں میں ادبی موضوعات پرکئی جامع مقالے جات پیش کئے ۔ ”ڈرامہ نگاری “اس صنف پرآپ نے اپنی ذاتی دلچسپی سے عملی طور پر کام کیااور اپنا نام روشن کیا ۔آپ ایک کامیاب ڈرامہ نگار ایک بہترین تخلیق کار ہی نہیں بلکہ ایک مخلص سماجی جہد کار اورایک مخلص استاد بھی تھے ۔ آپ کی سرپرستی اورسربراہی میںناندیڑ کی کئی سماجی‘ ثقافتی تنظیمیں اپنے مشن پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہیں۔ ڈاکٹر انیس قمر نے شاعری کم کی ہے لیکن نثر کے میدان میں اپنے نوک قلم سے ادبی گھوڑے دوڑادئےے ۔اُن ک قلم آج تک متحرک تھا ۔اُن کی دو کتابیں ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے اور فکر و نظر شائع ہوکر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں ۔ سردست ان کی اور تین نثری تصانیف زیورطباعت و اشاعت کی منتظر ہیں ۔ڈاکٹرانیس قمر ایک مخلص انسان اور ذی علم شخصیت کے حامل تھے ۔وہ بیک وقت نگہ بلند ‘سخن دل نواز‘ بالغ نظر‘ذہین ‘زیراک اورباشعورادیب ہی نہیں تھے بلکہ ایک نقاداورمحقق کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی تھے ۔ان کی تحریروں میںسنجیدگی‘اعتدال و استقلال ملتا ہے۔ان کے تنقیدی مضامین میں کشش انگیز اعتدال نمایاں طور پر دکھائی دیتاہے ۔ آج ادب کا بکل جلیل ور طلبہ کاشفیق و محترم استاد ‘قو م وملت کے بے لوث خدمتگار ہم سب سے جدا ہوگیا ہے ۔ڈاکٹر انیس قمر کی موت ان کے متعلقین ‘دوست احباب اورطلبہ کےلئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔خدان کی مغفرت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاءکرے ۔

خواجہ منیرالدین‘ناندیڑ(9096802243)
……………………………….
٭ڈاکٹرانیس قمر کومرحوم لکھتے ہوئے دلی صدمہ ہوتا ہے ۔ میرے اُن سے دیرینہ مراسم تھے ۔ میں اُن سے تب سے واقف ہوں جب وہ یو جی کلاس کے طالب علم تھے ۔انھوں نے خدا دادذہن پایاتھا ۔ بی ۔اے ۔ سال دوم کی انگریزی کی اسٹڈی اتنے کم دنوں میںانھوں نے کی تھی کہ شاید ہی کوئی دوسرا طالب علم ایسا کرے ۔ موصوف کی صلاحتیں ہمہ جہتی تھیں ۔ وہ ایک اچھے استاد ‘بے باک مقرر ‘ خوش خیال شاعر اور مثالی نثرنگار تھے ۔ طبعیت میں حاضر جوابی تھی ۔ انکا انداز نظاتمت بھی منفرد تھا ۔ پرور دگار پاک سے دعا ہے کہ بہ طفیل رحمت عالم ﷺ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے ‘متعلقین کو صبرجمیل اور شہرکے ادبی حلقوں کےلئے انکا نعم البدل عطاءکرے ۔ آمین۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
محمدکمال الدین صدیقی ساجد۔وساوانگر ناندیڑ
……………………………….
٭شہرناندیڑ کی مشہور ومعروف علمی ‘وسیاسی ملی ‘سماجی شخصیت پروفیسر انیس الحق قمر سابق پروفیسر و رکن عاملہ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم کربلا و مال ٹیکڑی ناندیڑ کل رات دیر گئے قلب پر حملہ کی وجہ سے رحلت فرماگئے ۔ مرحوم گوناگوں صلاحیتوںں کے مالک تھے ۔اپنی قابلیت و صلاحیتوں ������یں ناندیڑ ہی نہیں بلکہ مراٹھواڑہ کے باہر بھی مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں مشہور ومعروف تھے ۔ مختلف علاقوں میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا ‘جامعہ اسلامیہ دارالعلوم کربلا ناندیڑ کے مجلس عاملہ کے فعال رکن تھے ۔اسی طرح شہر ناندیڑ و اطراف میں مختلف تنظیموں میںرہتے ہوئے علمی ‘ملی ‘ سماجی و سیاسی خدمات انجام دیں۔جسے فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ انتقال پر ملال کی اطلاع ملتے ہی دارالعلوم کربلا و مال ٹیکڑی دونوں اداروں میںقرآن خوانی کے بعد دعائیہ نشست منعقد ہوئی ۔ مجلس انتظامیہ دارالعلوم کربلاو مال ٹیکڑی نے گہرے رنج و غم کااظہار کیا اورمرحوم کیلئے دعاءمغفرت کی ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کوغریق رحمت فرمائے اورلواحقین کوصبر جمیل عطافرمائے ۔آمین ثم آمین۔
جامعہ اسلامیہ دارالعلوم کربلا‘ناندیڑ
……………………………….
٭ڈاکٹر انیس قمر کے بے وقت جانے سے اردو ادب کا اعظیم نقصان ہے جس صنفِ ادب پر وہ طبع آزمائی کر رہے تھے مہاراشٹرا میں بہت کم افراد اس پر کام کرہے ہیں اردو ڈرامہ کے مکالمے ڈاکٹر انیس قمر کے بغیر خاموشی اختیار کر لیں گے ایک بہترین دوست ایک بہترین استاد اور اعلی درجے کا ڈرامہ نگار آج ہمارے درمیان نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثمہ آمین

ڈاکٹرنورالامین‘پربھنی
……………………………….
٭ڈاکٹرانیس قمر کے اچانک انتقال کی خبر سن کر بے حد دُکھ ہوا ۔انہیں میں ایک عرصے سے جانتا ہوں ۔ گو کہ ملاقاتیں کم کم ہوتی تھیں مجھے جب بھی ملے محبت اور خلوص کیساتھ ملے ۔ بیشتر ملاقاتیں علمی اورادبی مجلسوں میں ہی ہوتیں ۔ اردو زبان وادب پڑھانے والا شخص مہذب اورخوش اخلاق ہی ہوتاہے وہ انیس قمر بھی تھے ۔ ناندیڑکو ہی اپناوطن ثانی کہتا ہوں کہ بچپن کاکچھ حصہ وہاں گزرا ۔ اب جب جب ناندیڑ کا ذکر ہوگا ۔انیس قمریادآتے رہیں گے ۔ اللہ اُن کے پسماندگان کوصبرجمیل عطاءکرے اورمرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ آمین۔

خان مقیم خان
سابق نیوزبراڈکاسٹر‘آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد´
……………………………….
٭انیس الحق قمر ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔وہ بیک وقت ایک ادیب ’ڈرامہ نگار ‘خطیب اور مشفق استاد تھے ۔ وہ ایک وسیع المطالعہ اور بیدارذہن کے مالک تھے۔ وہ کانگریس سے وابستہ رہے تھے ۔مولاناآزاد مشن اس تنظیم کے بانی و سیکریٹری تھے ۔ہرسال اس تنظیم کی جانب سے مراٹھواڑہ کی معروف سماجی وادبی شخصیات کو ”فخر مراٹھواڑہ ایوارڈ“ سے نوازاجاتاتھا ۔ ”ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے“ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ہے ۔ حال ہی میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کامجموعہ ”فکرونظر“ کے نام سے شائع ہوا جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی ۔ ورق تازہ نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں نہایت ہی دیدہ زیب کلر سپلیمنٹ”انیس الحق قمر ‘فن او رشخصیت“شائع کیا ۔ ڈاکٹر انیس الحق قمر کی ادبی ‘سیاسی وسماجی خدمات نہایت وسیع و گرانقدر ہیں ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اورلواحقین کو صبر جمیل عطاءکرے ۔

ڈاکٹرارشاداحمدخان
صدرشعبہ اردو این ایس بی کالج ناندیڑ