نوپور شرما کا متنازع بیان اور خلیجی ممالک میں ملازم ہندوستانیوں کی پریشانیاں

رجنیش کمار بی بی سی ہندی، دہلی
31 سالہ تیجسوی سوریا حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان ہیں۔ سنہ 2015 میں کی گئی ان کی ایک ٹویٹ دو سال قبل تنازعے کا شکار ہوئی تھی۔ اپنی ٹویٹ میں تیجسوی سوریا نے لکھا کہ 95 فیصد عرب خواتین کو گذشتہ چند سو سالوں میں کبھی بھی ’اورگیزم‘ نہیں ملا۔تیجسوی سوریا ایم پی بنے تو ان کے ٹویٹ کا سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا۔ اس وقت بھی عرب دنیا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ پارٹی نے اس وقت کوئی کارروائی نہیں کی لیکن سوریا نے پانچ سال بعد ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔اب ایک بار پھر بی جے پی اپنی 37 سالہ لیڈر نوپور شرما کے حوالے سے بیک فٹ پر ہے۔ نوپور شرما نے ایک نیوز چینل پر ایک پروگرام میں پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ نوپور شرما کے علاوہ بی جے پی کے ایک اور ترجمان نوین کمار جندل نے بھی پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض ٹویٹ کیا تھا۔ان دونوں کے ریمارکس پر عرب کے اسلامی ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ قطر نے انڈیا سے معافی کا مطا لبہ بھی کیا۔ تنازعے کو بڑھتا دیکھ کر بی جے پی نے کہا کہ یہ پارٹی کی رائے نہیں ہے اور نوپور شرما کو معطل کر کے نوین کمار جندل کو پارٹی سے باہر کر دیا گیا ہے۔عرب ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ خلیجی ممالک میں لاکھوں انڈین کام کرتے ہیں اور صرف 35 لاکھ انڈین متحدہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں جن میں ہندو بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔یہ تعداد متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا 30 فیصد ہے۔ اسی طرح لاکھوں انڈین سعودی عرب میں بھی کام کرتے ہیں۔اکتوبر 2019 میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انھوں نے 29 اکتوبر کو عرب نیوز کو انٹرویو دیا۔

تضادات کی سیاست:اس انٹرویو میں پی ایم مودی نے کہا تھا: ‘تقریباً 26 لاکھ انڈینز نے سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا ہے۔ وہ بھی یہاں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہر سال بڑی تعداد میں انڈینز یہاں حج کی زیارت اور کاروبار کے لیے آتے ہیں۔ میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ انڈیا کا آپ نے سعودی میں جو مقام بنایا ہے اس پر مجھے فخر ہے۔ ان کی محنت اور عزم کی وجہ سے سعودی عرب میں انڈیا کی عزت میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اسی طرح بڑھتے رہیں گے۔پی ایم مودی نے کہا تھا کہ اس علاقے میں 80 لاکھ انڈین رہتے ہیں۔ یہ لاکھوں انڈین یہاں سے اربوں ڈالر کما کر انڈیا بھیجتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق بیرون ملک مقیم انڈینز نے گذشتہ سال 87 ارب ڈالر کی رقم انڈیا بھیجی جس میں خلیجی ممالک میں کام کرنے والے انڈینز کا حصہ 45 فیصد سے زیادہ تھا۔توانائی کے تحفظ کے معاملے میں بھی انڈیا خلیجی ممالک پر منحصر ہے۔ سنہ 2019 میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے پی ایم مودی نے کہا تھا کہ انڈیا اپنی خام تیل کا 18 فیصد سعودی عرب سے اور 30 فیصد ایل پی جی کی ضرورت سعودی عرب سے ہی درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا، عراق اور ایران سے بھی تیل درآمد کرتا ہے۔ انڈیا اپنی ضروریات کا 80 فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات انڈیا کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور سعودی عرب چوتھا۔ایک طرف وزیراعظم مودی کا یہ کہنا کہ انڈینز نے سعودی عرب میں جو مقام بنایا ہے اس پر انڈیا کو فخر ہے اور دوسری طرف ان کی پارٹی کے لیڈر پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کررہے ہیں؟ کیا بی جے پی کی ملکی سیاست خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے میں کمزور ثابت ہو رہی ہے؟جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں مغربی ایشیا کی ماہر پروفیسر سجتا ایشوریہ کہتی ہیں: ‘بی جے پی کی گھریلو سیاست خارجہ پالیسی کے لیے ایک دھچکا ہے۔ آپ کی ملکی سیاست کی جھلک خارجہ پالیسی میں بھی نظر آتی ہے۔

یہ سیاست خلیجی ممالک میں کام کرنے والے لاکھوں انڈینز کی روزی روٹی کو متاثر کرے گی۔ بہت سے آجر انڈینز کو نوکری دینے سے انکار کر دیں گے۔ عرب ممالک کی ناراضگی سے انڈیا کو جو نقصان اٹھانا پڑے گا وہ بہت بھاری ہو گا۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ وہ تیل دینا بند کر دیں گے بلکہ سنہ 1973 میں خلیجی ممالک نے اسرائیل کی وجہ سے مغرب کو تیل دینا بند کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے انڈیا کو تیل دینا اس لیے بند نہیں کیا کیونکہ انڈیا کا اسرائیل کے متعلق ایک واضح موقف تھا۔سجاتا کہتی ہیں: ‘عرب کے ساتھ تعلق صرف پیسے کے لیے تیل لینے کا نہیں ہے۔ ہمارا رشتہ ثقافتی اور تاریخی ہے۔ انڈینز نے بڑی محنت سے وہاں اپنا مقام بنایا ہے۔ بی جے پی کی سیاست ان کی محنت کو برباد کر دے گی۔ ابوظہبی میں مندر کا سنگ بنیاد رکھ کر آپ پھولے نہیں سماتے جبکہ یہاں آپ اتنی اوچھی سیاست کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کی ایک سطح تھی اور اسی کی وجہ سے بیرون ملک ہماری ساکھ بنی تھی۔ اب لوگ اس ساکھ کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سیاست سے انڈیا کی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ خلیجی ممالک میں انڈین اشیا کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہو چکی ہے۔

عرب ممالک میں کام کرنے والے انڈینز کیا کہتے ہیں؟:الہ آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر طارق آفاق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سرجن ہیں۔ ان سے پوچھا کہ انڈیا میں ہونے والے ان واقعات کا سعودی عرب میں رہنے والے انڈینز پر کیا اثر پڑتا ہے۔اس کے جواب میں ڈاکٹر آفاق کہتے ہیں: ‘یہاں کے حکومتی نظام میں احتجاج ممنوع ہے۔ میڈیا کی بھی اپنی حد ہوتی ہے۔ مقامی لوگ کیا سوچتے ہیں اس کا زیادہ اندازہ نہیں لگ پاتا ہے۔ لیکن ہم ذاتی طور پر اس سے متاثر ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے پیغمبر اسلام سب کچھ ہیں۔ ان کی توہین کسی کو پسند نہیں۔آفاق کہتے ہیں: ‘اگر یہ چیزیں ہوتی رہیں گی تو یہاں کام کرنے والے ہندوؤں کے لیے بھی ایک غیر آرام دہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں رہنے والے ہندو بھی سعودی عرب اور پیغمبر اسلام کے تعلقات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم آپس میں بات کرتے ہیں تو کوفت ہوتی ہے۔ انڈینز کی شبیہ یہاں اچھی رہی ہے، لیکن اگر ملک میں اس طرح کی سیاست جاری رہی تو آنے والے وقت میں اس کا اثر پڑے گا۔ لوگ نوکریاں دینے سے انکار کر دیں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب ممالک سے بات کیے بغیر بی جے پی اپنے ترجمانوں کے خلاف سخت کارروائی کرتی۔ اس سے ہمارا سر بلند ہوتا اور انڈیا کی سیکولر شبیہ مضبوط ہوتی۔ریاست بہار کے اورنگ آباد ضلعے سے تعلق رکھنے والے شیام کمار دبئی میں ایک انڈین کمپنی میں پروجیکٹ مینیجر ہیں۔ وہ خود کو بی جے پی کا حامی بتاتے ہیں۔ وہ نوپور شرما کے ریمارکس اور عرب ممالک کے ردعمل سے پوری طرح واقف ہیں۔ شیام سے پوچھا گیا کہ کیا بطور ہندو انھیں دبئی میں کبھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا؟ یا کبھی حکومت کی طرف سے ہندو مورتیوں کے بارے میں کوئی قابل اعتراض تبصرہ آیا ہے؟اس سوال کے جواب میں شیام کہتے ہیں: ‘ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ایک ہندو ہونے کے ناطے مجھے کسی قسم کے امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میری بیوی بھی یہاں چھٹھ پوجا کرتی ہے اور سمندر میں نذرانے پیش کرتی ہے۔ اس میں بھی کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی خبریں آتی ہیں، تو شیام اسے کیسے دیکھتے ہیں؟:شیام کہتے ہیں: ‘مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے این آر آئی کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ میرے خیال میں بہت سی چیزیں مثبت ہو گئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے سرکاری دفاتر میں بھی اہم معلومات ہندی میں دی جاتی ہیں۔ جب سی اے اے اور این آر سی کا تنازع ہوا تو میں سوشل میڈیا پر لکھتا تھا، لیکن بہت سے مسلم دوست ناراض ہو گئے تو میں نے فیس بک چھوڑ دیا۔ جہاں تک نوپور شرما کے تبصرے کا تعلق ہے تو یہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہمیں کسی کی قابل احترام شخصیت کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے۔
دوطرفہ تعلقات پر اثرات؟:کیا اس طرح کے تبصروں کا خلیجی ممالک میں رہنے والے انڈینز پر بھی اثر پڑتا ہے؟ شیام کہتے ہیں: ‘پیسہ، روزگار اور کاروبار یہاں کے نظام میں روزمرہ کی زندگی ہیں۔ مذہبی تنازعات پر کوئی بحث نہیں ہوتی۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کون شخص ذاتی طور پر کیا سوچتا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات مذہب کو اہمیت دیتا تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہ لاتا اور اس کے ساتھ تجارتی معاہدے نہ کرتا۔ متحدہ عرب امارات کی نوعیت سعودی، قطر اور کویت سے بالکل مختلف ہے۔شیام کہتے ہیں: ‘انڈیا اور عرب کے اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات یک طرفہ نہیں ہیں۔ ان کے پاس تیل ہے اور تیل کا کھیل 50 سال سے زیادہ نہیں چلے گا۔ ان کا انحصار کھانے پینے سے لے کر دوسرے ممالک پر ہے۔ جہاں تک یہاں کام کرنے والے انڈینز کا تعلق ہے، وہ ان پر کوئی احسان نہیں کررہے ہیں۔ انڈین یہاں سخت محنت کرتے ہیں۔ یہاں انڈیا کے لوگ گھریلو ملازم سے لے کر سی ای او تک ہیں۔بہار کے رامیشور ساؤ سعودی عرب کے شہر دمام میں ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازم ہیں۔ جب نوپور شرما کے ریمارکس اور عرب ممالک کے ردعمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ مجھے بھی فیس بک سے معلوم ہوا۔ لیکن سعودی عرب میں لوگ صرف کام کرتے ہیں اور گھر جاتے ہیں۔ بُرا لگتا ہے کہ اگر مذہب ہی سب کچھ دیتا تو مجھے روزگار انڈیا میں ہی مل جاتا۔ میں اپنی بیوی بچوں سے اتنی دور کیوں رہتا ہوں؟ ظاہر ہے مجبوری کے تحت۔ یہاں انڈیا کا امیج اچھا ہے لیکن اگر انڈیا کی سیاست ایسی ہی رہی تو ہماری امیج خراب ہوگی۔ اچھے امیج کی وجہ سے پاکستانی لوگ بھی خود کو انڈین کہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آئندہ انڈینز کو خود کو پاکستانی کہنا پڑے۔

کیا انڈیا کی داخلی سیاست انڈیا کی معیشت کو نقصان پہنچائے گی؟ سلمان خورشید کانگریس دور حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اس چیز کا سب سے زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسی سیاست سے باز رہنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی کو شدید نقصان پہنچے۔متحدہ عرب امارات اور انڈیا کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ ہونے والا ہے۔سعودی عرب نے 2019 میں انڈیا میں پیٹرو کیمیکلز، انفراسٹرکچر اور ریفائنریز میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔انڈیا ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ پر کام کر رہا ہے۔ طالبان کی آمد سے افغانستان میں انڈیا کے مفادات کو پہلے ہی خطرات لاحق ہیں۔انڈیا اپنے ان مفادات کو ہندو مسلم نفرت کی سیاست کے ذریعے پورا نہیں کر سکتا۔تلمیذ احمد سعودی عرب میں انڈیا کے سفیر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب دنیا میں انڈیا کی عزت بہت زیادہ رہی ہے اور ایسی سیاست سے سب کچھ ختم ہو جائے گا اور دم توڑ جائے گا۔ تلمیذ احمد کہتے ہیں: ‘عرب ممالک میں احتجاج ممنوع ہے، اس لیے لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج نہیں کرتے۔ لیکن عام لوگوں کے ذہنوں میں بھی غصہ ہے۔

Leave a comment