ہندوستان میں نوٹ بندی کے بعد 45 سال کی سب سے بڑی بے روزگاری : رپورٹ

نئی دہلی :31جنوری (ایجنسیز)نیشنل سیمپل سروے آفس کے پیریوڈک لیبر فورس سروے نے ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 2017-18 میں 6.1 فیصدی ریکارڈ کی ہے جو کہ گزشتہ 45 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ برنس اسٹینڈرڈ نے ایسا رپورٹ کیا ہے۔ اسی ہفتے نیشنل اسٹیٹسکل کمیشن کے دو اراکین نے مبینہ طور پر حکومت کے ذریعہ رپورٹ کو شائع نہ کئے جانے کی وجہ سے اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا۔ یہ رپورٹ ابھی تک عوامی نہیں کی گئی ہے۔مودی حکومت کے ذریعہ 2016 میں نوٹ بندی کے اعلان کے بعد بے روزگاری کو لے کر یہ پہلا سروے ہے۔ اس سروے کے لئے ڈیٹا جولائی 2017 سے جون 2018 کے بیچ لئے گئے ہیں۔ بزنس اسٹینڈرڈ کے ذریعہ جن دستاویزات کا ریویو کیا گیا اس کی بنیاد پر پتہ چلا کہ 1972-73 کے بعد سے یہ اب تک کی بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ سروے کے مطابق، یو پی اے کی دوسری مدت کار کے دوران 2011-12 میں بے روز گاری کی شرح 2.2 فیصدی تھی۔رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں 15 سے 19 سال کے بیچ کے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح 2011-12 سے بڑھ کر 17.4 ہو گئی ہے۔ تاہم دیہی علاقوں کی خواتین میں بے روزگاری کی شرح 4.8 فیصدی سے بڑھ کر 13.6 فیصدی ہو گئی ہے۔بزنس اسٹینڈرڈ نے این ایس ایس او کی جس رپورٹ کو دیکھنے کا دعوی کیا ہے اس کے مطابق ’نوجوان اب زرعی شعبے میں کام کرنے کے بجائے باہر جاکر کام کی تلاش کر رہے ہیں کیوں کہ زرعی شعبہ میں انہیں واجب محنتانہ نہیں مل پا رہا ہے“۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2004-05 کے مقابلہ 2017-18 میں اس معاملہ میں گراف اوپر گیا ہے۔ 2004-05 میں تعلیم یافتہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 15.2 فیصدی تھی جو 2017-18 میں بڑھ کر 17.3 فیصدی پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح شہروں کے تعلیم یافتہ مردوں میں بھی بے روزگاری کی شرح 2011-12 کے 3.5-4.4 فیصدی سے بڑھ کر 2017-18 میں 10.5 فیصد پہنچ گئی ہے۔حالاںکہ، حکومت نے اس معاملہ میں صفائی پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیشنل سیمپل سروے دفتر جولائی 2017 سے دسمبر 2018 تک کی مدت کے لئے سہ ماہی اعداد و شمار پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ اس کے بعد رپورٹ جاری کر دی جائےگی۔

Leave a comment