ہمارا معاشرہ اور عدم برداشت کے مریض

اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

یوں تو ہمارا معاشرہ کئی دہائیوں سے اخلاقی زوال کا شکار ہے، لیکن کچھ عرصے سے ہم میں چند ایسے اخلاقی امراض در آئے ہیں جس کی وجہ سے بحیثیت معاشرہ ہمارا وجود خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے۔ عدم برداشت کا موذی مرض اس میں سر فہرست ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو فرد میں پائے جانے والے انا، خود غرضی اور تکبر کے جرثوموں کے ساتھ پروان چڑھتا ہے اور سرطان کی طرح اُس کے اندرون میں پھیل کر اس کے وجودکو اِس بری طرح جکڑ لیتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنے وجود کے لئے خطرناک بن جاتا ہے بلکہ پورے معاشرے کے لئے ایک خود کش بمبار کی طرح ہوجاتا ہے جس سے عدم برداشت کے ایسے ایسے رویے پھوٹتے ہیں کہ کئی کئی انسانی نسلیں اس کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہیں۔ عدم برداشت کی کئی قسمیں ہیں، جیسے نسلی(برتری کا) عدم برداشت، قومی (تفخر کی وجہ سے) عدم برداشت، دولت کے خاطر عدم برداشت، لسانی عدم برداشت، مذہبی و مسلکی عدم برداشت وغیرہ۔ ان میں سب سے خطرناک جو آج ہمارے معاشرے میں سرطان کی طرح پھیل کر ہمیں نیست و نابود کرنے پر تلاہواہے، وہ مذہبی و مسلکی عدم برداشت ہے۔ دوسرے مذاہب والے اگر ہمارے ساتھ مذہبی عدم برداشت کا رویہ اپناتے ہیں، ہم سے(غلط فہمیوں کے بنیاد پر ہی سہی) سخت نفرت اور عداوت رکھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ لیکن جب اپنے ہی ہم مذہب، اہل علم سمجھے جانے والے، وقت کی نزاکتوں کی سمجھ دکھاتے ہوئے امت کے اتحاد و اتفاق اور کلمہ کی بنیاد پر سب کو یک جٹ ہونے کے موضوع پر گھنٹوں تقریر کرنے والے، مسلکی عدم برداشت کا رویہ اپناتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں تو حیرت کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر جنہیں ہم فروعی مسائل کے دائرے میں بھی نہیں لاسکتے ایک دوسرے پر طعنے کسنا، ہجو اُڑانا، منبر و محراب اور دینی درس گاہوں کے مسندوں کو ان مذموم حرکتوں کے لئے استعمال کرنا عام ہوتا جارہا ہے۔ اگر کسی نے حالات کو مدنظر رکھ کر کوئی ایسی بات کہہ دی جو آپ کے سوچ سے میل نہیں کھاتی، جو آپ کے خیال میں عوام کو آپ کے مسلک اور فکر سے دورکر سکتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے جو اپنا ایک نام نہاد تقویٰ اور پرہیز گاری کا بڑا سا بت اپنے مریدوں اور مقلدوں کے لئے بنا رکھا ہے وہ زمیں بوس ہوسکتا ہے، بھلے سے وہ بات سو فیصد حق ہی کیوں نہ ہوں آپ عدم برداشت کا ایسا مظاہرہ کریں گے کہ دشمن بھی انگشت بدنداں رہ جائیں۔ امت کے دانشوروں اور درد مند دل رکھنے والے علماء اور صلحا حضرات کو چاہئے کہ وہ آگے آیئں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور یہ عدم برداشت کے مریض قوم و معاشرے کو اپنی گھٹیا اور لایعنی حرکتوں سے برباد کردیں، عوام کو ان کے تباہ کن رویوں سے واقف کرانا آج کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کے خلاف کفر و نفاق کا فتویٰ لائیں، اپنے جاہل مقلدوں کو اکسا کر آپ کے خلاف ایک محاذ کھڑی کردیں، لیکن یہ بات مت بھولئے کہ جیت ہمیشہ میانہ روی، انصاف، محبت اور حق کی ہی ہوتی ہے۔ ہمارے جو کھلے دشمن ہیں ان کا تو ہمیں پتہ اور ہم ان سے کبھی بھی نپٹ سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے چھپے دشمن ہیں، جو ہمارے گھروں میں بیٹھ کر ہمارے صفوں میں انتشارپیدا کر رہے ہیں، وقتی اور گھٹیا مفاد کے لئے ہمیں مسلکوں کے بھول بھلیوں میں الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ان سے نپٹنے کے لئے ہم لائحہ عمل تیار کریں، اور کامل منصوبہ بندی کے ساتھ معاشرے کو ان عدم برداشت کے مریضوں سے نجات دلائیں۔

Leave a comment