ہاں میں سشما سوراج ہوں۔۔۔!

نازش ہما قاسمی
جی آنجہانی سشما سوراج، اعلیٰ ذات ہندو برہمن ، بی جے پی کی سینئر و قد آور لیڈر،سابق وزیر خارجہ ہند، سابق وزیراعلیٰ دہلی،سپریم کورٹ کی سابق وکیل، ہندوستان کی سب سے چہیتی سیاست داں کا خطاب پانے والی، پہلی خاتون پارٹی ترجمان، سب سے کم عمر پارٹی انچارج، بی جے پی کی پہلی خاتون کابینہ وزیر، بی جے پی کی پہلی خاتون وزیر بننے کا ریکارڈ رکھنے والی، معتدل مزاج سیاستداں، بیرون ممالک پھنسے ہندوستانیوں کی مسیحا، داعش کے چنگل میں پھنسی سینکڑوں نرسوں کو عراق سے ہندوستان پہنچانے والی سشما سوراج ہوں۔ میری پیدائش ۱۴؍فروری ۱۹۵۲ میں ہندوستان کے امبالا چھائونی ہریانہ میں ہوئی۔ میرے والد کا نام ہردیو شرما اور والدہ کا نام لکشمی دیوی ہے۔میرے والد دھرم پورہ لاہور پاکستان سے تعلق رکھتے تھے تقسیم ہند میں انہوں نے وہاں سے ہجرت کرکے امبالہ میں سکونت اختیار کی، میرے والد مشہور ویدھ اور آر ایس ایس کے اہم رکن تھے۔میرے بھائی کا نام گلشن شرما ہے جو کہ ڈاکٹر ہیں اور بہن کا نام وندنا شرما ہے جو پولیٹکل سائنس کی پروفیسر ہیں۔

میری شادی سوراج کوشل سے ۱۳؍جولائی ۱۹۷۵ میں دوران ایمرجنسی ہوئی، میری شادی ان سے لوو میریج تھی ہم دونوں پنجاب یونیورسٹی میں ہی ملے تھے اور وہیں ہمارا پیار پروان چڑھا اور ہم نے شادی کرنے کافیصلہ کرلیا؛ حالانکہ ہم دونوں کا خاندان اس رشتے سے راضی نہیں تھا؛ لیکن ہم نے اہل خانہ کی مرضی کے خلاف شادی رچا لی اور بعد میں انہیں راضی کرلیا۔ میرے شوہر سوراج کوشل سپریم کورٹ میں کریمنل معاملوں کے مشہور وکیل ہیں۔ میرے شوہر ملک کے سب سے کم عمر گورنر بھی رہ چکے ہیں، ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۳ کے دوران انہوں نے ۳۷؍سال کی عمر میں میزورم کی گورنری کی، ۱۹۸۴ سے لے کر ۲۰۰۴ وہ ممبرپارلیمنٹ بھی رہے۔ ان سے میری ایک بیٹی ہے، جس کا نام بنسری سوراج ہے اور وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیںاور لندن کے انر ٹیمپل سے وکیل بنی، فی الحال وہ دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کرتی ہیں۔میں اپنے شوہر کےلیے ’عمدہ دوست‘ اور ا پنی بیٹی بانسری سوراج کے لیے ’مثالی ماں‘ بنی۔ میری ابتدائی تعلیم ہریانہ کے امبالہ چھائونی سناتن دھرم کالج میں ہوئی، یہاں میں نے سنسکرت اور پولیٹیکل سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔یہاں سے فراغت کے بعد پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں لاء کی تعلیم حاصل کی اور وکیل بنی۔ میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ۱۹۷۰ میں طلبہ تنظیم ای بی وی پی سے منسلک ہوکر کیا بعد میں جے پرکاش نارائن تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایمرجنسی کی پرزور مخالفت کی ، ایمرجنسی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک ہوگئی اور وفادار کارکن کی طرح اخیر عمر تک انتہائی فعالیت کے ساتھ کام کرتی رہی۔ میں ۱۹۷۷ سے ۱۹۸۲ تک ہریانہ ودھان سبھا کی رکن رہی، ۲۵ سال کی کمسن عمر میں ہی میں نے امبالہ چھائونی حلقہ اسمبلی کی سیٹ فتح کرلی تھی پھر دوبارہ ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۰ تک ممبر اسمبلی رہی۔ جولائی ۱۹۷۷ میں ہریانہ میں جنتا پارٹی کی حکومت میں مزدور اور شعبہ روزگار میں ریاستی وزیر منتخب ہوئی، ۲۷ سال کی عمر میں بی جے پی کی ریاستی صدر منتخب ہوئی۔ ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۰ تک بی جے پی اور لوک دل مخلوط حکومت میں تعلیم کھاد اور سول سپلائی کی وزیر بنائی گئی۔ اپریل ۱۹۹۰ میں راجیہ سبھا کی رکن منتخب ہوئی اور ۱۹۹۸ میں دہلی کی وزیراعلیٰ بنی ، اور اسی سال مستعفیٰ بھی ہوگئی ۔ اپریل ۲۰۰۰ میں مجھے راجیہ سبھا کا پھر رکن منتخب کیاگیا، ۳۰ ستمبر ۲۰۰۰ سے ۲۹ جنوری ۲۰۰۳ تک میں وزیر اطلاعات ونشریات رہی، اپریل ۲۰۰۶ میں مجھے پانچویں ٹرم کےلیے راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیاگیا، ۱۶؍مئی ۲۰۰۹ میں میں پندرہویں لوک سبھا کے لیے رکن پارلیمان منتخب ہوئی، اور ۳؍جون ۲۰۰۹ کو اپوزیشن لیڈر قرار پائی۔ ۲۶؍مئی ۲۰۱۴ کانگریس حکومت کے اختتام کے بعد مودی لہر سے قائم حکومت میں وزیر خارجہ بنی ۲۰۱۹ میں اپنی خرابی طبیعت کی وجہ سے سیاست سے دوری اختیار کرلی؛ لیکن پارٹی کی رکن برقرار رہی ۔


ہاں میں وہی سشما سوراج ہوں جس کی ۲۰۱۱ میں گاندھی جی کی سمادھی پر رقص کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس پر خوب ہنگامہ بھی ہوا تھا مجھ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیاجارہا تھا، اس واقعے کا ویڈیو ٹیلی ویزن پر نشر ہورہا تھا؛ لیکن میں نے وضاحت کی تھی کہ میں کوئی ناچ نہیں رہی تھی؛ بلکہ دیش بھکتی کی دھن پر رقص کر رہی تھی ۔ ہاں میں وہی ہوں جسے کلاسیکی موسیقی، شاعری، فنون لطیفہ اور ڈرامہ میں دلچسپی تھی مجھے ادب کا مطالعہ کرنے سے بھی جلا ملتی تھی۔ ہاں میں وہی ہوں جس نے کہا تھا کہ اگر سونیا گاندھی وزیراعظم بنی تو میں اپنے سر کے بال منڈوالوں گی، ہاں میں وہی ہوں جس نے ایدھی فائونڈیشن پاکستان میں دس سال سے زندگی گزار رہی گونگی گیتا جو ٹرین میں سفر کے دوران غائب ہوگئی تھی اسے ہندوستان واپس لائی،ہاں میں وہی ہوں جس نے پاکستانی طاہر کی محبت میں ستائی ہوئی عظمیٰ کی مدد کی اور پاکستان کے چنگل سے چھڑا کر اسے بھی ہندوستان لائی۔ ہاں میں وہی سشما سوراج ہوں جس نے محبت کے چکر میں پاکستانی جیل میں سڑ رہے ممبئی سے قریب ملاڈ کے مسلم نوجوان کی دادرسی کی اور اسے سفارتی سہولیات پہنچا کر آزاد کرایا، جس نے واگھہ بارڈر پار کرتے وقت جذباتی طورپر اپنے وطن کی سرزمین پر سجدہ شکر ادا کیا ۔ ہاں میں وہی ہوں جو ٹوئٹر پر فعال تھی جس نے بھی جب بھی آواز دی اس کی مدد کی ، میری مدد صرف ہندوستانی باشندوں کےلیے ہی نہیں؛ بلکہ سرحد پار کے لوگوں کےلیے بھی تھی جو میرے دائرہ اختیار میں ہوتا تھا ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا ۲۰۱۶ میں انڈیا آئی ہوئی پاکستانی لڑکی ماہ طیبہ منیرہ نے جب مجھے پکارا تو میں نے اس کی مدد کی؛ حالانکہ اس وقت اڑی حملے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی تھی؛ لیکن میں نے یہ کہتے ہوئے منیرہ اور اس کے ساتھ آئی ہوئی ہمجولیوں سے کہا کہ ’آپ میری بیٹیوں کی طرح ہیں اور بالکل ایک ماں کی طرح میں کوشش کروں گی کہ آپ کو کوئی آنچ نہ آئے اور آپ بحفاظت گھر لوٹ سکیں‘ ان کی مدد کی اور انہیں ہر تحفظ فراہم کراتے ہوئے ان کے وطن واپس بھیجا۔ ہاں میں وہی ہوں جسے ۲۰۱۸ میں گردے کی بیماری لاحق ہوئی، ۱۰ دسمبر کو ایمس میں میرا گردہ تبدیل بھی کیاگیا اور میں نقاہت وکمزوری کی وجہ سے مودی جی کے دوسرے ٹرم میں حصہ بھی نہیں لے پائی، اپنی صحت کی بحالی کےلیے گھر پر آرام کررہی تھی اور علاج ومعالجہ چل ہی رہا تھا؛ لیکن ۶؍اگست ۲۰۱۹ کا دن میرے لیے اجل کا پیغام لے آیا دہلی کے ایمنس میں آنا فاناً داخل کرائی گئی؛لیکن دل کا دورہ پڑ چکا تھا ڈاکٹروں نے میری موت کی تصدیق کردی اور میں اِس دنیا سے اُس دنیا میں چلی گئی جہاں ہر کسی کو جانا ہے۔ آج میری موت پر پورا ہندوستان سوگوار ہے، وزیراعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم تک، صدرجمہوریہ، اپوزیشن لیڈران، ملک کے عوام سبھی شردھانجلی دے رہے ہیں اور میرے کیے ہوئے کاموں کو یاد کرکے خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔

Leave a comment