چراغ سب کے بجھیں گے ۔۔۔

شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز؍سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن)

ایک بار پھر ذکر یوگی آدتیہ ناتھ کا ہے۔

اور کیوں نہ ہو، وہ اور ان کی پولس ایسے ’کارنامے‘ کررہی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ذکر کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ تازہ معاملہ یوپی کی راجدھانی لکھنوکا ہے۔ پولس نے اس بار ایپل کمپنی کے ایئریا منیجر کو یہ ’سمجھ‘ کر کہ وہ ’غنڈہ‘ ہے، گولی ماردی یا پولس کے الفاظ میں اس کا ’انکائونٹر‘ کردیا۔ وویک تیواری دو بچیوں کا باپ ہے یعنی ایک عام آدمی۔۔اس کاقصور کیا تھا؟ صرف اتنا کہ پولس نے (جن کی تعداد دو تھی) اسے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے گاڑی نہیں روکی۔ شاید اس لیے کہ رات کا وقت تھا اور اس کے ہمراہ اس کے دفتر کی ایک ساتھی ثنا خان بھی موجود تھی۔ ممکن ہے اسے پولس کی نیت پر شبہ رہا ہو؟ اور کیوں نہ ہو پولس نے ان دنوں جو رویہ ، طرز ،انداز اور طریقہ کار اپنارکھا ہے اس کی بنیاد پر کوئی بھی شریف انسان ڈرے گا، اور پولس سے دور ہی بھاگے گا۔ وویک تیواری کو بھی شاید ڈر لگا ہو۔۔۔لیکن پولس کے لیے تو یہ گویا کہ ’نا ک کٹنے‘ کا معاملہ تھا!پولس ’حکم‘ دے اور کوئی اسے سنے نہیں تو وہ گولی نہیں تو کیا چلائے گی! بس گولی چلا دی گئی جو وویک کی ٹھوڑی کو چیرتے ہوئے نکل گئی۔

یوپی جیسا کہ گزشتہ ہفتہ بھی اس کالم میں تحریر کیاگیا تھا اب ’انکائونٹر صوبے‘ یا ’انکائونٹر ریاست‘ میں تبدیل ہورہا ہے یا تقریباً تبدیل ہوگیا ہے۔ یوگی نے اپنی پولس کو گولی باری کی مکمل آزادی دے رکھی ہے، پولس جب چاہے کسی پر بھی گولی چلا سکتی ہے اسے بس یہی جواب دینا ہوگا کہ جس پر گولی چلائی گئی وہ مشتبہ تھا۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ انکائونٹر کی یہ سیاست یوگی کی پالیسی کا حصہ ہے اور اس پر لگام لگنی چاہئے۔ بہرحال وویک کے انکائونٹر کو اگر بغیر کسی چھان بین اور تفتیش کے ’قتل عمد‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا لیکن یوگی کی پولس کیسے اتنی آسانی سے ملزم یا مجرم قرار دی جاسکتی ہے! ڈرامہ شروع ہے۔ پولس والے گرفتار تو ہیں مگر خود کو ’بے قصور‘ قرار دے رہے ہیں۔ اور وزیر اعلیٰ یوگی ہرطرح کی تفتیش کی یقین دہانی کرتے تھک نہیں رہے ہیں۔ یوگی جی یقین دہانی سے نہ وویک تیواری واپس آنے والا ہے نہ اس کی بیوہ کلپنا اور دو بچیوں کا بھلا ہونے والا ہے؛ اب یہ انکائونٹر کی سیاست چھوڑنی ہوگی کیوں کہ پولس کے منہ کو خون لگ چکا ہے وہ بے قصور وں کو نشانے پر لے رہی ہے ۔۔۔اور عوام کو اب زبان کھولنا ہوگی۔۔۔انہیں بھی ،جو علی گڑھ میں کیمرے کے سامنے ،مستقیم اور نوشاد کے ’انکائونٹر‘ پر خاموش تھے اور جو اس معاملے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا لیڈران، فورم اگنیسٹ کے ذمے داران اور عمر خالد وغیرہ پر پولس کے ذریعے معاملہ درج کرنے پر خاموش ہیں، اب زبان کھولنا ہوگی کیوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ز د پر نہیں ہیں ۔۔اب تو تمام عوام ہی زد پر ہے ؎

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

۔۔۔احمد فراز

(بصیرت فیچرس)

Leave a comment