ناانصافی کے دورِ حاضر میں بیداری کیلئے کتابوں اور قلم کا استعمال بہت ضروری

محمدتقی کی تصنیف” مٹی کے چاند ستارے“ اوردیگر ک±تب کاڈاکٹر فوزیہ خان کے ہاتھوں اجرائ

اورنگ آباد :27/فروری ( راست)ہم اسی وقت تک انسان ہیں جب تک ہمارے اندر احساسات ہیں۔ احساسات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہیں کہ ہم انسان ہیں۔ اگر احساس مردہ ہو جائے تو پھر کچھ نہیں بچتا جس کا مظاہرہ ہم غزہ اور فلسطین کی خبروں میں دیکھ اور پڑ ھ رہے ہیں۔ عورتوں اور بچوں پر بمباری ، بوڑھے اور نہتے معصوم انسانوں پر بمباری یہ انسانیت نہیں حیوانیت ہے۔ ان حالات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں انسان تو بس رہے ہیں لکن انسانیت ختم ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں جب دنیا میں احساسات مردہ ہوتے جارہے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف احساسات ہی نہیں نازک احساسات کی پاسبانی اور ترجمانی کررہے ہیں۔ ان ہی کا اظہار یہ کتابیں ہیں جن کا آج اجرآ ہوا ہے۔

ان خیالات کا اظہار محترمہ فوزیہ خان رکن پارلیمان ( راجیہ سبھا ) نے وارثانِ حرف و قلم کے تحت منعقدہ جلسئہ اجرآ کے پروگرام میں کیا۔ فیم کی سرپرستی میں منعقدہ اس جلسئہ اجرآ میں ڈاکٹر حمید خان کی کتاب ” آردو کے نئے ناول۔ صنفی و جمالیاتی منطق“ ، ڈاکٹر ریحانہ بیگم کی کتاب ” گرہ نیم باز ‘ ‘ محمد تقی ( صحافی ناندیڑ) کی کتاب ” مٹی کے چاند ستارے“(تنقیدی وتحقیقی مضامین کا مجموعہ) ، ڈاکٹر غزالہ کی کتاب ”بازیافت “ اور ڈاکٹر آمنہ فاروقی کا ڈاکٹر سلیم محی الدین پر جمع کردہ مضامین کا مجموعہ ” معشوق دکن “ کا اجرآ ڈاکٹر فوزیہ خان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ نازک احساسات کی ترسیل اور تفہیم کے لیے کتابوں کا لکھا جانا اور پڑھنا ضروری ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ غالب  صریرِ خامہ نوائے سروش ہے۔یہ لکھنا پڑھنا اور سوچنا اور سوچنے کے لیے مواد فراہم کرنا فکر و نظر کے درواکرتا ہے اور ایسے ہی افراد کو آ کی طرف سے فرشتوں کے ذریعہ اچھے اچھے خیالات و احساسات پہنچتے ہیں جو کتابوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

آج کی کتابوں کے مصنفین کی یہ خاص بات ہے کہ انہوں نے بڑی عرق ریزی سے یہ کتابیں لکھی ہیں۔ انقلاب اور ذہنی تبدیلیاں کتابوں کے ذریعے آتے ہیں۔ اور یہ ذہنی تبدیلیاں لانا اور انقلابات کے راستے ہموار کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ باہر کی باتیں چھوڑیئے ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے ؟ سزا یافتہ زانیوں کو آزاد کر دیا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر پہلوانی میں ملک کی نمائندگی کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ برا سلوک کیا جار ہا ہے۔ اوران کے مسائل اور آواز پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ حکومت میں شامل لوگ ان سب واقعات کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ناانصافی کے اس دور میں بیداری کے لیے کتابوں اور قلم کا استعمال بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں لکھنا ہوگا۔ پڑھنا ہوگا اور ہمیں اس سوچ کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ہوگا کہ وہ پڑھیں اور ان کے لیے ہم انقلابی سوچ کتابوں کے ذریعہ فراہم کریں۔ اگر ان کتابوں کے ذریعہ عوام کی سوچ نہیں بدلتی ہے تو ان کتابوں کے لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

صاحب جشن و صدرِ اجلاس ڈاکٹر ارتکاز افضل نے اپنے خطبئہ صدارت میں تمام مصنفین کو ان کی کتابوں کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اردو میں لکھا جانے والا ہر لفظ ہر حرف محترم و مقتدر ہے۔ اس کی تحریم کی بنیاد ہی اردو زبان ہے جو کہا جا رہا ہے وہ کہانی ہے اور جس انداز میں کہا جارہا ہے وہ اسلوب ہے۔ آسان نثر میںقاری کو متاثر کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آسان نثر کی جو کتابیں مقبول ہوتی ہیں وہ ادب کے شہ پارے ہیں۔ مشکل زبان سے آپ قاری کو مرعوب تو کر سکتے ہیں متاثر نہیں کر سکتے۔ آپ آسان زبان ہی کے ذریعے اپنے قاری اور لوگوں کے دلوں میں اتر سکتے ہیںاور اپنا نقش چھوڑ سکتے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے حمید خان کی کتاب کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مراسم کو نصف صدی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ حمید خان کی آردو کے نئے ناولوں پر لکھی ہوئی کتاب نئے عہد کا وہ بیانیہ ہے جو آج کے قاری کی مکمل نمائندگی کرتا ہے۔ نئے ناولوں پر اس سے بہتر کتاب آج کوئی اور نہیں ہے۔ انہوں نے کتابوں میں ہونے والی غلطیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کتابوں کی تصحیح کرنے والے افراد پیدا کرنے یا ایسے تربیت یافتہ افراد کی ایک ٹیم تیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

ڈاکٹر حمید خان نے اپنی مخاطبت میں کہا کہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی محفل ہے جس میں ۵? تنقیدی کتابوں کا اجرآ عمل میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقیدلکھنا تخلیق‘ افسانہ اور ناول لکھنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف نقائص کو بیان کر دینا تنقیدنہیں ہوتی۔ تنقید در اصل ایک صلیب ہے جس پر خود کو مصلوب کرنا ہوتا ہے۔ نقاد کا مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے۔ جس کی کوئی حد ہونا حسا ب۔ تنقید میں شناخت بنانا پل صراط سے گذرنے کے برابر ہے۔ نثر لکھنا شاعری سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔

نور الحسنین نے کہا کہ یہ ادبی چہل پہل جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب خالد سیف الدین کی کاوشوں کا نتیجہ اور ان کی عمدہ صلاحیتوں کے جلوے ہیں۔ یہ ہمارے علاقہ میںادب کی نشآِ ثانیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتابوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے اس سے ذہن کی گندگی دور ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ سلیم محی الدین نے اپنے ملک کے علاوہ پڑوسی ملک اور پوری اردو دنیا میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے تمام کتابوں کی ستائش کی اور مصنفین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب صاف ذہن کے لوگ ہیں۔ اسلم مرزا نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ۵? کتابوں میں سے ۳?کتابیں خواتین کی تصنیف کردہ ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ریحانہ کی کتاب کے بارے کہا کہ انہوں نے بہت اچھے مضامین لکھے ہیں ان کے موضوعات اور ان کی زبان قابلِ ستائش ہے۔

خان مقیم خان نے کہا کہ ” آردو کے نئے ناول “ آج کے دور کی ایک ایسی کتاب ہے جس کو پڑھنے کے بعد موجودہ عہد میں ناول کا منظر نامہ آسانی سے سمجھ میںآجاتا ہے۔ انہوں نے معشوقِ دکن کے بارے میں کہا کہ معشوق جو اپنا ہے وہ معشوق دکن ہے۔ تمام مصنفین نے بھی اظہارِ خیال کیا ، ڈاکٹر ریحانہ ‘ ڈاکٹر غزالہ اور ڈاکٹر آمنہ نے اپنی اپنی تقریروں میں اپنی اپنی کتابوں کا مختصر تعارف اس کا م میں ان کی رہنمائی کرنے والے افراد کا خصوصی ذکر کیا۔جالنہ سے تشریف لائے پروگرام کے میزبان ڈاکٹر شکیل احمد خان نے اپنے استاذ ڈاکٹر حمید خان کی کتاب کی کافی تعریف کی اور کہا کہ مراہٹواڑہ میں اردو تنقید ڈاکٹر حمید خان کے نام سے باقی اور زندہ رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ علم کا وہ آتش فشاں ہے ،آج جس کی تپش ساری دنیا محسوس کر رہی ہے۔

ناندیڑ:(ورق تازہ نیوز)واضح ہو کہ روزنامہ ورق تازہ ناندیڑ کے مدیراعلیٰ محمدتقی کی پہلی تصنیف "مٹی کے چاندستارے ” کاپہلا اجرا ءعلم وادب کے گہوارے شہر اورنگ آباد میں عمل میں آیا ۔اس کے بعد ناندیڑ میں ما ہ رمضان کے بعداس کتاب کا اعلیٰ پیمانے پر اجراءہوگااو ر صحافت پرایک بین الریاستی سمینار بھی منعقد ہوگا۔ جس کی تیاریوں کاآ غاز کردیاگیا ہے۔ ناگزیروجوہات کی بنا ءپر اجراءمیں محمدتقی اورنگ آباد کے جلسہ اجراءمیںشریک نہیںہوسکے البتہ اورنگ آباد میںمقیم ان کے فرزند انجینئر محمدشافع نے جلسہ میںشرکت کی اورمنتظمین کاشکریہ اداکیا۔