لاک ڈاؤن نے رنویر سنگھ کی جان لی،ذمہ دار کون؟

میرے سینے میں درد ہو رہا ہے، مجھے لینے آ سکتے ہو تو آجاؤ۔۔‘یہ الفاظ اس شخص کی آخری کال کے ہیں جس کی موت دلی سے پیدل مدھیہ پردیش جاتے ہوئے آگرا کے پاس ہوئی۔رنویر سنگھ نامی دلی میں ایک ڈلیوری مین کے طور پر کام کرتے تھے۔لیکن لاک ڈاؤن ہونے کے بعد دلی میں کھانے پینے اور رہائش کے مسائل کی وجہ سے انہوں نے اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیا۔گھر جانے کا کوئی اور ذریعہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رنویر سنگھ نے پیدل ہی اپنے گاؤں کی طرف چلنا شروع کر دیا۔

موت کی رات کیا ہوا؟:موت سے پہلے کی رات رنویر سنگھ نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر گاؤں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن بسیں نہ چلنے کی وجہ سے رنویر سنگھ نے پیدل چلنا شروع کر دیا۔ دلی سے نکل کر فرید آباد پہنچتے ہوئے رنویر نے رات ساڑھے نو بجے اپنی بہن پنکی سے بات کی۔

پنکی نے بتایا ’میں نے اس دن اچانک ہی بھیا کو فون ملا دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ گھر آرہے ہیں کیوںکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام وغیرہ سب رکا ہوا ہے۔ اور پیدل آرہے ہیں۔ مجھے یہ سن کر کافی عجیب لگا‘۔پنکی کہتی ہیں کہ ’بھیا سے بات کرنے کے بعد میں اپنی دوا کھا کر سو گئی۔ صبح اٹھی تو میں نے سب سے پہلے، پانچ بجے کے قریب بھیا کو فون کیا۔

’اس کال پر انہوں نے کہا کہ ان کے سینے میں درد ہو رہا ہے۔۔۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کہیں بیٹھ جائیں اور تب تک میں کسی کو فون کرتی ہوں۔‘

پیدل چلتے ہوئے رنویر کے ساتھ کیا ہوا؟:رنویر سنگھ دلی سے متھورا کے راستے صبح صبح آگرا پہنچ چکے تھے۔تب تک وہ کافی تھک چکے تھے۔ راستے میں کچھ کلومیٹر کے لیے انہیں ٹریکٹر میں بیٹھنے کا موقع بھی ملا لیکن انہوں نے اتنا طویل فاصلہ پیدل چل کر ہی طے کیا۔مگر رنویر سنگھ اس راستے پر تنہا نہیں چل رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی عمر کے کئی نوجوان، بزرگ اور بچے شامل تھے۔رنویر سنگھ دلی کے ایک ریستوران میں کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے ایک رشتہ دار اروند بھی رہتے تھے۔اروند وہی شخص ہیں جنہیں رنویر سنگھ نے آخری کال کی تھی۔ اروند ساری رات رنویر سنگھ کے ساتھ رابطے میں رہے تھے۔اروند کو ایک ٹرک میں جگہ مل گئی تھی جبکہ ان کے جیجاجی پیدل چل کر آرہے تھے۔اروند کہتے ہیں ’میری ان سے رات میں بات ہوئی تھی۔ رات میں ہی تھکن کی بات کر رہے تھے۔ لیکن کورونا کے ڈر کی وجہ سے کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور آگرہ تک آتے آتے ان کی حالت خراب ہو گئی۔

موت کے آخری گھنٹے:رنویر سنگھ کی موت نیشنل ہائی وے 2 پر صبح ساڑھے چھ بجے ہوئی۔ مرنے سے پہلے انہوں نے اپنے رشتہ دار اروند کو فون کر کے مدد کی اپیل کی تھی۔اروند کہتے ہیں ’انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میرے سینے میں درد ہو رہا ہے، مجھے لینے آ سکتے ہو تو آ جاؤ۔ میں نے کہا کہ سو نمبر پر ڈائل کریں۔ کسی سے مدد لیں۔۔ لیکن اس کے بعد ان کی آواز نہیں آئی۔

’اس کال کے تقریباً آٹھ منٹ بعد میں نے ٹرک سے اتر کر پھر ایک کال کی تو کسی اور نے فون اٹھا کر بتایا کہ ان کی حالت تشویشناک ہے۔ اس کے بعد وہ انتقال کر گئے۔‘

موت کے بعد کیا؟:رنویر سنگھ کی موت کے بعد سے ان کے گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ان کی بیوی ممتا اور تینوں بچے صدمے سے دو چار ہیں۔ رنویر سنگھ کی بہن پنکی نے بی بی سی کو بتایا ’ہمارے والد بھی جلدی گزر گئے تھے۔ اس کے بعد بھیا نے ہی گھر کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ ان کے تین بچے ہیں۔ گھر میں اب کوئی کمانے والا نہیں بچا ہے۔

’میں جب اپنے گھر کو دیکھتی ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ہم پر کیا گزری ہے یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ بھیا نے اس گھر کو بنانے کے لیے بھی ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ اب اس کا کیا ہوگا؟‘

یہ کہتے ہوئے پنکی جذباتی ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ ان کے گھر کی رونق ہی چلی گئی ہے۔وزیر اعظم مودی نے گزشتہ اتوار کو ’اپنے من کی بات‘ پروگرام میں تمام انڈین شہریوں خاص طور پر غریبوں سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والی مشکلات پر معافی مانگی تھی۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ رنویر سنگھ کا خاندان وزیر اعظم کو خود پر بیتی ہوئی مصیبتوں کے لیے معاف کرے گا یا نہیں، یہ وقت ہی بتائے گا۔