عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ ختم، تحریک عدم اعتماد کے حق میں 174 ووٹ

Pakistan's Prime Minister Imran Khan arrives to attend a military parade to mark Pakistan National Day in Islamabad, Pakistan, Wednesday, March 23, 2022. Pakistanis celebrated their National Day on Wednesday with a military parade in the capital, Islamabad, showcasing this Islamic nation's elite army units and high-tech weaponry, including short, medium, and long-range missiles, tanks, fighter jets and other hardware. (Anjum Naveed)

سنیچر اور اتوار کی نصف شب کے بعد تحریکِ عدم اتحاد کے حق میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے 174 ووٹ پڑنے کے بعد عمران خان کی وزارتِ عظمٰی ختم ہوگئی ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پر سنیچر کو ووٹنگ ہونی تھی۔ لیکن رات گیارہ بجے تک ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد میں مختلف افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پانچ معزز جج بھی عدالتِ عظمٰی پہنچ گئے کیونکہ ایسی خبریں تھیں کہ شاید انھیں توہینِ عدالت کی کارروائی کی سماعت کرنی پڑے۔

اس سے پہلے کے دو گھنٹوں کے دوران کئی ڈرامائی واقعات ہوئے جن میں نصف شب کے قریب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے قبل سپیکر اور کئی وزراء کی سابق وزیرِاعظم عمران خان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ کابینہ کا آخری خصوصی اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔اسد قیصر نے استعفیٰ دیتے وقت کہا کہ وہ 26 برس عمران خان کے ساتھ رہے اور اب سپریم کورٹ کے احکامات اور دھمکی آمیز مراسلے کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مستعفی ہونے کے بعد سپیکر کی کرسی پینل آف چیئر ایاز صادق کے حوالے کی۔

اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی حکومتی ارکان اپنے بینچوں سے اٹھ کر ایوان سے چلے گئے۔سپیکر کی جانب سے اپوزیشن کی پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک پڑھی گئی اور اس کے بعد رائے شماری شروع کی گئی۔سنیچر کو دن ساڑھے دس بجے شروع ہونے والا اجلاس وقفے وقفے سے جاری رہا۔ اور اس دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایوان میں تقاریر کرتے رہے۔
افطار کے بعد اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ ’ہم نے ایک گھنٹے سے ایک خاتون وزیر کی تقریر برداشت کی، براہ مہربانی اب اپوزیشن رہنماؤں کو بات کرنے دیں۔‘

پینل آف چیئرمین کے رکن امجد نیازی نے فلور وفاقی وزیر حماد اظہر کو دیا تو اپوزیشن نے ووٹنگ ووٹنگ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور شدید نعرے بازی کی۔اپوزیشن کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے امجد نیازی نے اجلاس میں نماز عشا کا وقفہ کرتے ہوئے اسے 9:30 تک ملتوی کیا۔اجلاس ملتوی ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس شروع ہوگیا جس میں شہباز شریف، بلاول بھٹو، خواجہ آصف، سعد رفیق، نوید قمر، خورشید شاہ، نوید قمر اور دیگر شریک ہوئے۔

اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے آئینی اور قانونی آپشنز پر بریفنگ دی۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے نو بجے بلائے گئے کابینہ اجلاس کے باعث عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا عمل شروع ہونے کے امکانات کم ہو گئے تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’پوری اپوزیشن آئین شکن ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں۔‘’ابھی بیس بیس اوور کا میچ باقی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق انتخابات ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر انتخابات کے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم الیکشن کی طرف چلے جاتے تو یہ بحران ہی ختم ہو جاتا۔ سیاست دان آپس میں مل کر بیٹھیں اور شفاف الیکشن کا فریم ورک طے کریں، یہ سارا ڈرامہ ختم ہو جائے گا۔ خچروں کا بازار لگا کر کرائسز ختم نہیں ہوتے۔‘

Leave a comment