راجہ سنگھ کی ضمانت ستم بالائےستم

تیلنگانہ کے ایم ایل اے راجہ سنگھ کو رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر مسلمانوں کے احتجاج کے نتیجے میں صبح نو بجے گرفتار کیا جاتا ہے اور بارہ گھنٹے کے اندر ضمانت مل جاتی ہے، ہمیں اندازہ تھا کہ یہ ڈرامہ دو سے تین دن تو چلے گا ہی لیکن اس بات کی امید نہیں تھی کہ مسلمانوں کو جھوٹی تسلی دیکر مطمئن بھی نہیں کیا جائے گا۔بحرحال یہ عمل نہ صرف قانون کی دھجیاں اڑانے والا ہے بلکہ بھارتی مسلمانوں کی عقیدت اور جذبات اور ان کا مقام بتایا گیا ہیکہ ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔دوسری طرف راجہ سنگھ کی دریدہ دہنی کی حماقت کا یہ عالم ہیکہ گرفتاری کے وقت اس نے ضمانت ملنے پر میڈیا والوں سے رسول اللہ ﷺ کی گستاخی پر مبنی دوسرا ویڈیو بنانے کا اشارہ دیا۔ظلم و نا انصافی اتنے پر ختم نہیں ہوتی حیدرآباد بعد میں الگ الگ مقامات پر احتجاج کررہے ۲۰۰ سے ۲۵۰۰ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی اطلاعات ہے اور کچھ مقامات پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور تصویر کا دوسرا رخ یہ ہیکہ نام پلی کریمنل کورٹ کے باہر راجہ سنگھ کے غنڈوں نے پولس پر حملہ کردیا ستم بالائے ستم یہ کہ میڈیا راجہ سنگھ کے جرم کو چھوڑ مسلم احتجاجیوں کے نعروں کو کور کرنے میں لگا ہوا ہے،”گستاخ نبی کی ایک سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا”اس جملے کو سلوگن کیوں سمجھ لیا گیا ہے اسلامی تعلیمات کو تو اس ملک میں بہت محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کی دوسری بڑی اقلیت کے تحفظ کے لیے اتنا ہی سمجھ لیا جائے کہ جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہ ایک مطالبہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے درندوں کو جو معاشرے میں نفرت و دشمنی کے بیچ بوتے ہیں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے نیز معاشرے کا امن خراب کرنے اور فساد کا سبب بنتے ہیں ان کی سزا چھوٹی نہیں ہو سکتی تو انہیں موت کی سزا دی جانی چاہیے، جس کی نوعیت سر تن سے جدا ہو، یہ مطالبہ کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔لیکن ایک بات تو طئے ہے عصمت و ناموس کا مقام عقیدت و محبت کے محور و مرکز ذات رسول ہاشمی پر گستاخانہ واقعات میں مشرکین ہند کی جرأت سے زیادہ مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہے
✍:پرویز نادر