بلا سودی بنکاری۔۔۔۔۔ ہر مسجد کی حصہ داری۔۔۔۔ "مسجد بارہ امام کھڑکپورہ ناندیڑ” کا بہترین قدم

✍🏻سید عمیر علی.(کھڑکپورہ , ناندیڑ )
مسجدیں دین کا قلعہ ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے مسجدیں صرف عبادت گاہ بن چکی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کے دورِ مبارک میں مسجدیں نماز کے وقت عبادت گاہ بن جاتی تھیں , جنگ کے وقت فوجی ہیڈ کوارٹر بن جاتی تھیں, سماجی مسائل کے وقت مقننہ بن جاتی تھیں تو فیصلوں کے وقت عدالت بن جاتی تھیں۔ دھیرے دھیرے سماج کی تشکیلِ نو کا عنصر مسجدوں سے ختم ہوگیا اور اب یہاں صرف نماز اور قرآن کی تلاوت ہی ہوتی ہے ۔

اب حالات بدل چکے ہیں۔ ظلم دندنا رہا ہے, مسلمان کسمپرسی کی طرف گامزن ہے, دینی,ایمانی, سماجی, معاشی اور معاشرتی مسائل سے دوچار ملت اب اپنا وقار کھو رہی ہے۔ ایسے حالات میں یہی وہ مسجدیں ہیں جہاں سے ہم دوبارہ ملت کی نشاۃ الثانیہ کرسکتے ہیں اسے اپنا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں۔ جس طرح بیماریوں کے گڑھ یثرب کو اللہ کے رسول ﷺ نے مسجد نبوی کی عبادت , عدالت , پارلیمنٹ اور تھنک ٹینک کے ذریعے مدینہ النبی بنادیا اسی طرح ہم بھی ظلم کے گڑھ میں انصاف کا علم بلند کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں جہاں ۳۰ کروڑ مسلمانوں کو سیاسی انصاف کی ضرورت ہے وہیں ۱۳۰ کروڑ شہریوں کو سماجی , معاشی اور معاشرتی انصاف کی ضرورت ہے۔ اور جس دن ہم اس ملک کے ۱۳۰ کروڑ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی قوت پیدا کرلیں گے ایسے مراکز قائم کرلیں گے جہاں لوگ آ کر انصاف کے ساتھ امن کا تحفہ بھی لے جائیں تب ہم بھی” اذا جاء نصراللہ والفتح ” کی تفسیر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔

ان تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے مراکز کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں نئے مراکز تعمیر نہیں کرنا ہے بلکہ ہماری مسجدوں کو ہمارے مراکز بنانا ہے جہاں صرف عبادت نہ ہوتی ہو بلکہ سماج کی ترقی , عدل و انصاف کے فیصلے اور امن و امان کا قیام بھی ہوتا ہو۔ اس کیلیے جو کام ہم آسانی سے اس ملک میں کرسکتے ہیں وہ ضرور کئیے جانے چاہیے۔

اسی کی ایک مثال مسجد بارہ امام کھرکپورہ, ناندیڑ نے قائم کی ہے ۔ عام طور پر ملت کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ مسجدوں کی آرائش و آسائش پر خوب خرچ کررہی ہیں , مسجدوں میں ایر کنڈیشن لگانے کا ایک عام رواج بن گیا ہے, بڑے بڑے جھومروں سے مسجدوں کی زیبائش کی جارہی ہے جو کہ صرف اور صرف غیر ضروری کام ہے۔ اور جو قرآن و حدیث مسجدوں میں بیان ہوتا ہے اسکا کوئی عملی مظاہرہ (پریکٹیکلٹی) مسجد کے باہر نظر نہیں آتی۔ مثلاً قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ.”اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو” (سورہ آل عمران آیت ۱۳۰ )
اور اس حکم کو نا ماننے والوں سے متعلق فرمایا گیا

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ

"پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔ اور اگر تم (سود سے) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔” (سورہ بقرہ آیت 279)

سود سے متعلق قرآن پاک یہ کہتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے سماج کے اکثر لوگ سود میں مبتلا ہیں۔ ایسا نہیں ہیکہ وہ شوق سے مبتلا ہے۔ ہرگز نہیں کوئی عام سا مسلمان بھی شوق سے سود میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ حالات اور مجبوریاں انہیں سود میں جکڑ لیتی ہیں جس سے باہر نکلنے میں انہیں سالوں گزر جاتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی کے اکثر افراد اپنے کام کاج اور کاروبار کو فروغ دینے, خود کا کاروبار شروع کرنے یا گھر کی تعمیر کیلیے بڑے پیمانے پر کمرشل بنک سے سود پر لون یا قرض لیتے ہیں۔ اس طرح انہیں دو نقصان ہوتے ہیں ایک تو اللہ کی ناراضگی جس سے وہ آخرت میں نقصان اٹھائیں گے دوسرا دنیا میں بھی انہیں اصل قرض سے پانچ گنا یا چھے گنا زیادہ رقم لوٹانی ہوتی ہے۔ اس طرح وہ یہاں بھی پریشان ہیں اور کل اللہ کے حضور بھی پریشان ہوں گے ۔

اس مشکل کو حل کرنے کیلیے جماعتِ اسلامی ہند نے ملک بھر میں بلا سودی بنکاری کا نظام شروع کیا اور ملک کے مختلف حصوں میں بلا سودی بنکس قائم کیے۔ جو کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کا ایک سنگ میل ہے۔ ان بینکوں کے ذریعے عوام کو ان کہ ضروریات کی تکمیل کیلیے ہر بینک اپنی استطاعت کے مطابق بلا سودی قرض( loan ) فراہم کررہا ہے جس سے الحمدللہ ہزاروں لوگ مستفیض ہوئے, سود کے جال سے آزاد ہوئے, اللہ کی ناراضگی سے بچے اور دنیا کے نقصان سے بھی بچ گئے۔

اسی ضمن میں *جماعت اسلامی ناندیڑ* نے بھی کچھ سال پہلے راحت کریڈٹ کوآپریٹو سوسائیٹی کے تحت *”راحت سوسائیٹی "* قائم کی۔ جس کے تحت کئی لوگوں کو بلا سودی لون فراہم کیے گئے۔ لیکن اس بینک میں زیادہ تر لوگ ڈیلی سیونگ اکاؤنٹ رکھتے ہیں تین ماہ روزانہ رقم جمع کرتے ہیں اور پھر قرض لیتے ہیں اور یہی سائیکل بار بار دہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ سوسائیٹی کی اصل ترقی اس کے سیونگ اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ اور جہاں تک مجھے علم ہے راحت سوسائیٹی میں ڈیلی سیونگ اکاؤنٹ کے مقابل سیونگ اکاؤنٹ کافی کم ہے۔ یعنی ہر کوئی صرف لون لینے کی غرض سے اکاؤنٹ کھولتا ہے۔ عوام کو چاہیے خصوصاً مالدار احباب کو کہ وہ بڑے پیمانے پر سیونگ اکاؤنٹ کھولے اور اپنی رقم جمع کرے تاکہ قرآنی احکامات جلد از جلد زمین پہ نافذ ہو۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللّٰهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘
’’اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی ایک حد کا نافذ کرنا ، اللہ تعالیٰ کی زمین پر چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے ‘‘ [سنن ابن ماجہ:۲۵۳۷،حسن]

اسی ضمن میں کھرکپورہ کی مسجد بارہ امام نے ایک بہترین قدم اٹھاتے ہوئے راحت سوسائیٹی میں مسجد کے نام سے ایک سیونگ اکاؤنٹ کھولا ہے۔ اور اس اکاؤنٹ میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیے جمع کیے ہیں۔ یہ ایک قابل تقلید عمل ہے۔ جس طرح ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ مسجدیں دین کے قلعے ہیں دین کے نفاذ اور اقامت کے مراکز ہیں ۔ یہاں صرف عبادت نہیں بلکہ سماج کی تشکیل نو ہوگی اور ملت کی نشاۃ الثانیہ ہوگی۔ اس بابت یہ قدم اقامت دین کی جدوجہد کو رفتار بخشے گا۔ اس طرح *اگر مسجدیں بلا سودی بینک یا اسلامی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھولیں گی تو اس سے دو فائدے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ مسجد کے مالیات میں شفافیت رہے گی۔ ہر چیز کا حساب اور اسٹیٹمنٹ رہے گا کہ کب کتنے پیسے نکالے گئے اور کہاں خرچ کیے گئے۔ اور دوسرا یہ کہ سماج سے سود کی لعنت ختم ہوگی* کیونکہ مثال کے طور پر
اگر ناندیڑ کی صرف ۱۰۰ مسجدیں بھی اس طرح اپنا زائد روپیہ مسجد کی تجوری کی بجائے راحت بینک میں جمع کرے; فرض کیجیے شہر کی 100 مسجدوں نے 150,000 ڈیڑھ لاکھ روپیے جمع کیے تو بینک کے سیونگ اکاؤنٹس میں تقریباً 15,000,000 یعنی ڈیڑھ کروڑ روپیہ جمع ہوگا۔ اب آپ سوچیے کہ شہر میں ایسی کتنی مسجدیں ہیں جو ڈیڑھ لاکھ سے زائد رقم بھی جمع کرسکتی ہیں۔ اگر اتنا پیسہ ہم بطور امانت ایسے اسلامی بینک میں جمع کرتے ہیں تو کتنے مسلمان خاندان سود کی لعنت سے بچیں گے بلکہ پھر تو غیر مسلم بھی ہمارے بینک سے استفادہ کر سود سے بچیں گے اور اسلام کے قریب آئیں گے۔

ذرا سوچیے ہم اپنی مسجدوں میں ایر کنڈیشن لگائیں, لاکھوں روپے کے جھومر لگائیں, ہزاروں روپیوں کی ایک قالین بچھائیں, اور غیر ضروری منزل پہ منزل تعمیر کرے کہ جس کا کوئی استعمال نہیں اور اسی مسجد میں نماز پڑھنے والا مصلی اسی محلے میں رہنے والا فرد سود کے جال میں پھنسا ہو, اللہ کے احکام توڑ رہا ہو, اور اسکی ضروریات حرام مال سے پوری ہورہی ہو تو کیا ہم اللہ کے سامنے اپنے ایر کنڈیشن, جھومر , قالین اور خالی پڑی منزلوں کو جسٹیفائے کرسکیں گے , کیا ہم اس چیز کی وضاحت کرسکیں گے, کیا ہم کوئی صفائی پیش کرسکیں گے۔ ان جھومروں , قالینوں اور خالی پڑی منزلوں کو بطور نیکی پیش کرکے اللہ سے جزا کی امید کرسکتے ہیں؟؟

لہذا تمام ہی مساجد کے ذمہ داران سے اپیل ہیکہ مسجد بارہ مام کی طرح آپ بھی اپنے مسجد کی زائد رقم کو راحت بینک میں جمع کریں تاکہ سماج میں قرآن نافذ ہو, اللہ کا دین قائم ہو اور سود کا خاتمہ ہو۔ اس طرح اگر پورے شہر سے سو مسجدیں جمع کریں تو ڈیڑھ کروڑ روپیہ جمع ہوسکتا ہے اور پورے ضلع سے صرف *۵۰۰* *مساجد نے بھی جمع کیا تو تقریبًا ساڑے سات کروڑ روپیے جمع ہوسکتے ہیں اور یقین جانیے ملت کو سود سے بچانے کیلیے ان شاءاللہ اتنے روپیے کافی ہوگے اللہ اس میں اتنی برکت دیگا کہ ناندیڑ کا کوئی بھی مسلمان سود کے جال میں باقی نہیں رہے گا۔* اور اس طرح بینک میں رقم جمع کرنے سے مسجد کی رقم محفوظ رہے گی اور انتظامی امور کی شفافیت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ان شاءاللہ۔

آخر میں اللہ سے دعا ہیکہ اللہ پاک مسجد بارہ امام کے ذمہ داروں کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایک بہترین آغاز کیا ہے ان شاءاللہ انجام بھی اچھا ہی رہے گا۔
آئیے ہم سب بھی عہد کریں کہ سماج سے سود کی لعنت کو ختم کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ
بلا سودی بنکاری .ہر مسجد کی حصہ داری۔