بابری مسجد انہدام کے تیس سال: جب صحافیوں نے عمارت گرانے کی ریہرسل، ہتھیاروں کے لیے فون ہوتے دیکھے

یہ 1992 میں چھ دسمبر کی بات ہے جب کار سیوک کے ایک مشتعل ہجوم نے سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد پر دھاوا بول کر اسے گِرا دیا۔قدیم شہر ایودھیا میں اس واقعے کے بعد انڈیا بھر میں ہندو مسلم کشیدگی بڑھ گئی۔ کئی ریاستوں میں پُرتشدد واقعات ہوئے اور ہزاروں لوگ اس کا نشانہ بنے۔سپریم کورٹ نے تین برس قبل اس کیس کا فیصلہ سنایا اور اب وہاں رام مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے جو ممکنہ طور پر دو سال میں مکمل ہوجائے گا۔ایودھیا سے 26 کلومیٹر دور دھنی پور گاؤں میں بابری مسجد کے لیے پانچ ایکڑ اراضی مختص کی گئی تھی جہاں اس منصوبے کی منظوری تاخیر کا شکار ہے اور اس کے بعد ہی وہاں تعمیر کا کام شروع ہوگا۔بابری مسجد کے انہدام کے تیس برس بعد ہم نے تین صحافیوں سے بات کی ہے جنھوں نے اس واقعے کی رپورٹنگ میں فرائض سر انجام دیے تھے۔سینیئر صحافی قربان علی، شرت پردھان اور رام دت ترپاٹھی نے اس حوالے سے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔

’مسجد گرانے کی ریہرسل بھی ہوئی، کارکنان ہتھیاروں سے لیس تھے‘:صحافی قربان علی بتاتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کے آپ عینی شاہد بن جاتے ہیں اور جو آپ کے دل و دماغ سے کبھی نہیں نکلتے۔ یہ مسلسل آپ کو ’ہانٹ‘، یعنی ڈراتے رہتے ہیں۔ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو دن دیہاڑے بابری مسجد کا انہدام میری زندگی کا ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس کا میں خاموش تماشائی بنا رہا۔ وہ واقعہ آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے۔تیس سال قبل میں سنڈے آبزرور، بی بی سی ہندی اور اردو سروس کے لیے کام کر رہا تھا۔میں پانچ دسمبر کو فیض آباد پہنچا اور ہوٹل ’شان اودھ‘میں ٹھہرا جو ایودھیا کو کور کرنے والے صحافیوں کا پسندیدہ مقام ہوا کرتا تھا۔

اسی روز یہ واضح ہوگیا تھا کہ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کارکنان اگلے دن ایودھیا میں 480 سال پرانی بابری مسجد کو گرانے جا رہے ہیں۔ وہ کئی دنوں سے اس کی ریہرسل کر رہے تھے اور مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ہر طرح کے آلات سے لیس تھے۔چھ دسمبر کو کارکنان وہاں جمع ہونا شروع ہوئے۔ انڈیا اور بیرون ملک کے سینکڑوں صحافی بابری مسجد کے سامنے ایک چبوترے پر موجود تھے۔کار سیوک آہستہ آہستہ مسجد کے قریب جمع ہونے لگے اور حفاظتی حصار کی خاردار تاروں کی طرف بڑھنے لگے۔ حالانکہ سنگھ پریوار کے کچھ کارکنوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی لیکن چند ہی منٹوں میں ہنگامہ ہوگیا۔ کار سیوک مسجد میں داخل ہونے لگے۔اب انھیں مسجد کی دیواروں پر چڑھتے اور گنبدوں پر بیٹھے دیکھا جا سکتا تھا۔میں بی بی سی کے اس وقت کے جنوبی ایشیا کے سربراہ مارک ٹلی کے ساتھ تھا۔ مارک نے صبح 11 بج کر بیس منٹ پر بابری مسجد کا ایک گنبد گرتے ہی فیض آباد جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ بابری مسجد پر حملے کی پہلی خبر دے سکیں۔

اس وقت موبائل فون نہیں تھے اور لندن میں بی بی سی کے ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرنے کا واحد ذریعہ فیض آباد میں سینٹرل ٹیلی گراف آفس (سی ٹی او) تھا۔ مارک اور میں دوپہر 12 بجے کے قریب فیض آباد پہنچے جہاں مارک نے اپنی پہلی رپورٹ فائل کی۔دوپہر ایک بجے ہم واپس ایودھیا آنے لگے جہاں مسجد کا ایک بڑا حصہ منہدم ہو چکا تھا۔ ہمیں شہر کے مضافات میں ایک ہجوم نے روکا۔ ہم فیض آباد واپس گئے اور نیم فوجی دستوں کا ایودھیا جانے کا انتظار کیا۔لیکن ایک پُرجوش ہجوم نے ان نیم فوجی دستوں کو ایودھیا اور فیض آباد کے درمیان ریلوے کراسنگ پر روک دیا۔ کراسنگ بند کر دی گئی اور راستے میں جلے ہوئے ٹائر لگائے گئے۔
’ہماری جان خطرے میں تھی‘:جب ایودھیا پہنچنے کی ہماری تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو ایک صحافی دوست ونود شکلا کی مدد سے ہم دوپہر دو بجے کے قریب بابری مسجد کے پیچھے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن تب تک وہاں بابری مسجد کے تینوں گنبد منہدم ہو چکے تھے۔جیسے ہی ہم اپنی گاڑی سے نیچے اترے، پرتشدد کار سیوکوں کے ایک گروپ نے لاٹھیوں سے لیس ہم پر حملہ کردیا۔ ان میں سے زیادہ تر مقامی باشندے تھے اور وہ مارک ٹلی کو ہمارے ساتھ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے۔وہ جانتے تھے کہ مارک بی بی سی کا صحافی ہے اور اس کی ایودھیا کی کوریج سے ناخوش تھے۔ وہ شاید ہمیں مار ڈالتے لیکن پھر مشتعل کار سیوکوں میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ ہمیں مارنے سے وہاں انہدام کی کار سیوا میں رکاوٹ ہو سکتی ہے اور بہتر ہو گا کہ ہمیں بند کر دیا جائے اور ہمیں بعد میں قتل کر دیا جائے۔ہمیں قریبی عمارت کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ ایک طرف یہ مایوسی تھی کہ ہم مسجد کے انہدام کی مزید کوریج نہیں کر پائیں گے تو دوسری طرف موت کا ڈر۔۔۔شام چھ بجے منت سماجت سے ہمیں رہائی ملی۔ ہمیں ایک سرکردہ رہنما کے دفتر لے جایا گیا جہاں کارکنان جشن منا رہے تھے۔ایک مورتی جسے مسجد سے لایا گیا تھا وہ اب اسی دفتر میں تھی جہاں لوگ اسے دیکھنے کے لیے قطار بنائے کھڑے تھے۔ ہمارے سروں پر ’کار سیوکوں‘ کی پٹیاں باندھ کر اتر پردیش پولیس کے ٹرک میں ڈال کر رات آٹھ بجے فیض آباد کے ہوٹل شانِ اودھ میں چھوڑ دیا گیا۔اس وقت تک سرکاری میڈیا، آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن نے بس یہ خبر چلائی تھی کہ ’ایودھیا میں متنازع تعمیر کو کچھ نقصان پہنچا ہے‘ مگر حقیقت یہ تھی کہ بابری مسجد کو مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا تھا۔

’ایک شخص کو فون پر ہتھیاروں کا بندوبست کرتے سنا‘:صحافی شرت پردھان بتاتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنا ہی وقت گزر جائے، ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کل ہی ہوا ہے۔ جب میں 6 دسمبر بروز اتوار کے بارے میں سوچتا ہوں تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جبکہ اب تو 30 سال گزر چکے ہیں۔وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے اس روز کار سیوا کے انعقاد کا اعلان کر رکھا تھا۔ہدایات دی گئی تھیں کہ تمام کار سیوک، جو ملک کے مختلف کونوں سے آئے تھے، صبح سویرے سریو کے کنارے سے دو مٹھی ریت لے کر بابری مسجد کے سامنے بنے ہوئے سیمنٹ کے چبوترے پر گرا دیں مگر کارکنان نے باسولس (ایک قسم کا ہتھوڑا) مار کر اس ڈھانچے کو توڑنا شروع کر دیا۔اگلے چوبیس گھنٹوں میں جو ہوا تو اعلانات کے برعکس تھا۔بہت سے لوگوں کی طرح، اگر میں بھی وی ایچ پی کے اعلان کے بعد ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جاتا، تو میں اس دن کے بارے میں کچھ بھی سن یا دیکھ نہ پاتا۔وی ایچ پی کے اعلان کے بعد میں اس کے میڈیا سینٹر کی طرف بڑھا، جہاں تمام صحافی فون استعمال کرنے جاتے تھے۔وی ایچ پی کے اس میڈیا سینٹر تک پہنچنے کے لیے تقریباً 12 سے 13 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔ آخری سیڑھی پر پاؤں رکھنے سے پہلے مجھے اندر سے کچھ سنائی دیا جس کے بعد میں جہاں تھا وہیں رُک گیا۔وہ وہاں ہتھوڑے، رسیاں اور انہدام کے لیے دیگر ہتھیاروں کا انتظام کر رہا تھا۔ وہ شخص جو اس فون سے میرے سامنے بات کر رہا تھا، میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا ’ہاں ہاں 200 بیلچے، کلہاڑیاں دیگر ہتھیار اور موٹی لمبی رسیاں کل صبح تک یہاں پہنچ جائیں۔‘یہ سن کر میں حیران ہوگیا۔ اندر سے آنے والی آواز سنتے ہی میں خاموشی سے دو تین سیڑھیاں اتر گیا تاکہ اندر موجود شخص کو کوئی شک نہ ہو کہ میں اسے سن رہا ہوں۔وہ نیچے اترا تو میں اوپر چڑھ گیا لیکن دونوں نے ایک دوسرے کا منھ نہیں دیکھا۔ اوپر جا کر دیکھا کہ وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ اس کے بعد میں نے اسی فون سے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے دلی دفتر کو فون کیا۔مجھے چھ دسمبر کی صبح اس گفتگو کا مطلب سمجھ آیا۔

تب ہزاروں کار سیوکوں کے ایک گروپ نے بابری مسجد کی دیواروں پر ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا۔ مسجد کی دیواریں زمین سے بہت موٹی تھیں، تقریباً ڈھائی فٹ۔دیوار کو پتلا کرنا شاید اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔ جس کی وجہ سے ان کار سیوکوں نے موٹی دیوار میں دونوں طرف سے سوراخ کرنا شروع کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر کوئی اپنے کام میں تربیت یافتہ ہے۔درار کاٹنے کے بعد دیوار اس جگہ سے پتلی ہو گئی۔ اس لیے ان میں سے کچھ لوگوں نے تمام دیواروں میں کچھ فاصلے پر چوڑے سوراخ کرنا شروع کر دیے۔ سوراخ کرنے کے بعد لوگ رسیاں لیے تیار کھڑے تھے۔ انھوں نے ایک سوراخ میں رسی ڈال کر دوسرے سوراخ سے نکالی اور مسجد کی ساخت کو نیچے کر دیا۔بابری مسجد ٹیلے جیسی اونچی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ رسیوں کے دونوں سرے نیچے لٹکائے گئے جہاں کھڑے ہزاروں کار سیوکوں کو زور سے رسی کھینچنے کو کہا گیا۔ اس طرح پہلا گنبد گرا۔اسی طرح دوسرے اور تیسرے گنبد کو بھی گرا دیا گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کا کسی نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا ہو گا۔سب کا خیال تھا کہ مسجد پر اوپر سے حملہ کیا جائے گا لیکن جس نے بھی اسے گرانے کا منصوبہ بنایا اسے شاید معلوم تھا کہ یہ کام کسی اچھی تکنیک سے ہی ممکن ہو گا۔سی بی آئی کی تحقیقات میں مجھ سے بھی پوچھ گچھ کی گئی اور جب میں نے انھیں وی ایچ پی میڈیا سینٹر میں سنی گئی گفتگو کی تفصیلات بتائی تو انھوں نے کال ٹریس کر لی اور کال کرنے والے بھی پکڑے گئے۔اس کی مدد سے سی بی آئی اس نتیجے پر پہنچی کہ بابری مسجد کا انہدام ایک سوچی سمجھی سازش تھی اور میں تمام گواہوں میں ایک اہم گواہ بن گیا تھا۔
’خراب پیٹ کی وجہ سے جج موقع سے غائب‘:رام دت ترپاٹھی بتاتے ہیں کہ لوگ مجھے آج بھی یاد دلاتے ہیں کہ 30 سال پہلے 6 دسمبر 1992 کو انھوں نے بابری مسجد کے انہدام کی خبر پہلی بار میری آواز میں بی بی سی ہندی ریڈیو پر سنی تھی۔ بعد میں ایودھیا کے ایک صحافی ارشد افضل نے مجھے اس کی ایک کیسٹ پیش کی۔ انھوں نے اسے اپنے ریڈیو پر ہی ریکارڈ کیا تھا۔اس دن میں مانس بھون دھرم شالہ کی چھت پر تھا۔ وہاں سے مسجد بالکل میرے سامنے تھی۔ تب اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کو ضمانت دی تھی کہ مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ جج تیج شنکر بھی 5 دسمبر کی شام تک پورے انتظامات سے مطمئن تھے۔اس بار کلیان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ یو پی پولیس گولی نہیں چلائے گی اور مرکزی سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ فوج کا استعمال نہیں کرے گی۔ کار سیوکوں کے حوصلے ساتویں آسمان پر تھے۔

یہ ’ابھی یا کبھی نہیں‘ کے مترادف تھا۔سنگھ پریوار کی کال پر ایودھیا پہنچنے والے دو لاکھ سے زیادہ کار سیوک اس بات پر مشتعل تھے کہ ان کی قیادت نے صرف سریو پانی اور ریت لا کر ایک دن پہلے ہی علامتی کار سیوا کا فیصلہ کیوں کیا۔تب ایودھیا کی فضاؤں میں کئی طرح کی خبریں تھیں۔ اس سے قبل آس پاس کے کچھ مزارات کو منہدم کر دیا گیا تھا اور بہت سے مسلمان خاندان محفوظ مقامات منتقل ہوگئے تھے۔کشیدہ ماحول کے درمیان 12.15 بجے سے علامتی کار سروس کا آغاز ہوا۔ نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے رضاکاروں کا ایک گروپ سروں پر پیلی پٹیاں باندھے ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے کھڑا تھا۔تقریباً 11 بجے بی جے پی کے بڑے لیڈر کار سیوا کے مقام پر پہنچے۔ پھر اچانک افراتفری شروع ہو گئی۔ سروں پر پیلی پٹیاں باندھے سنگھ سویم سیوکوں نے لاٹھیوں کا استعمال کیا۔اسی دوران اچانک سینکڑوں کار سیوکوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسجد کی طرف دھاوا بول دیا۔ یہ لوگ ’گوریلا انداز‘ میں لوہے کی مضبوط بیریکیڈنگ کو چھوٹا کرتے ہوئے گنبد پر چڑھ گئے اور ’جے شری رام‘، ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ہمارے دائیں طرف مندر کی جائے پیدائش کی چھت پر بیٹھا اعلیٰ افسر پریشان تھا۔

مسجد کی حفاظت کے لیے تعینات پولیس اہلکار بندوقیں لٹکائے باہر نکلے۔ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آبزرور ڈسٹرکٹ جج تیج شنکر خراب پیٹ کی وجہ سے موقع سے غائب تھے۔ہمارے بائیں طرف رام کتھا کنج کی چھت پر بنے پلیٹ فارم سے بی جے پی اور سنگھ کے سینیئر رہنماؤں کی اپیلوں کا کار سیوکوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس دوران کچھ کار سیوکوں نے ٹیلی فون کی تاریں کاٹ دیں اور صحافیوں سے تصویریں نہ لینے کو کہا۔جب ان کے ایک گروپ نے مانس بھون کی چھت پر آنے کی دھمکی دی تو میں نے اپنا کیمرہ خاتون صحافی کے بیگ میں رکھا۔ میں اور مارک ٹلی خبر نشر کرنے کے لیے دیہات اور درشن نگر سے ہوتے ہوئے فیض آباد سینٹرل وائر ہاؤس پہنچے۔کلیان سنگھ حکومت کو برطرف کرکے لکھنؤ میں صدر راج نافذ کیا گیا اور ایودھیا میں مسجد کے انہدام پر فوجداری مقدمہ قائم کیا گیا۔اس کے بعد عدالتوں میں کیس چلتا رہا اور 2019 میں فیصلہ آیا۔( بہ شکریہ بی بی سی اردو )