دو دنوں میں دو مسلم لڑکیوں کی ہندو بن کر شادی کے بندھن میں بندھنے کی دو خبریں آئی ہیں جو چند ایک کے لیے افسوس ناک ہوں گی ، اور کچھ لوگوں کے لیے اِن خبروں کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی ، یا ان کے لیے یہ خبریں بس عام خبروں ہی جیسی ہوں گی ۔ ایک خبر یہ ہے کہ رائے بریلی کی من تشا نے دھرم پریورتن کرکے ہندو دھرم اپنا لیا ، اور دوسری خبر ہے کہ بریلی کی سونم صدیقی شادی کرکے لکشمی بن گئی ہے ۔ اس سے پہلے ایسی کئی خبریں آ چکی ہیں ، جن میں ایک خبر ایک بریلی کی ہی ایک عالمہ کے مرتد ہونے کی تھی ۔ ایک ایسے وقت میں جب دھرم پریورتن کو تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے ، بالخصوص کسی کے مسلمان بننے پر ، تبدیلیٔ مذہب کی یہ دونوں خبریں چونکاتی ہیں ، کیونکہ ان دونوں ہی معاملات میں انتظامیہ کو کوئی بات قابلِ اعتراض نظر نہیں آئی ۔
ممکن ہے کہ دھرم پریورتن کے ان دونوں ہی واقعات کو ’ اوپر ‘ والوں کی حمایت حاصل رہی ہو ۔ شک کی پوری گنجائش ہے کہ یہ دونوں ہی واقعے منصوبہ بند تھے ۔ شک کا سبب بھی ہے ؛ سونم صدیقی سے لکشمی بنی لڑکی نے میڈیا میں جو بیان دیا ہے اس میں وہ رام للّا اور ایودھیا کی باتیں کر رہی ہے ، وہ حلالہ اور تین طلاق کی باتیں کر رہی ہے ۔ کچھ ایسی ہی باتیں مانسی بھی کر رہی ہے ، یوں لگتا ہے کہ ان کے ذہن کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالا گیا ہے ۔ اس سے قبل جس عالمہ نے دھرم پریورتن کیا تھا ، جس کا نام افرح تھا ، اس نے ’ امام احمد رضا خان اکیڈمی ‘ سے تعلیم حاصل کی تھی ، اس کی ایک مندر میں باقاعدہ شدھی کرائی گئی تھی ۔
اس کا معاملہ پولیس میں ہے ، لیکن پولیس کیا کر لے گی ! سچ تو یہ ہے کہ جس قوم کی یہ بچیاں ہیں ، اس قوم کے لوگ بھی کچھ نہیں کر سکیں گے ، کیونکہ انہیں فکر ہی نہیں ہے کہ ان کی قوم کے بچے اور بچیاں گمراہی اور تاریکی کے ایک غار میں ڈھکیلے جا رہے ہیں ، باقاعدہ منصوبہ بند طریقے سے ان کی ذہن سازی یا برین واشنگ کی جا رہی ہے ، اور انہیں اسلام سے دور کیا جا رہا ہے ۔ افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ ایسی بہت سی لڑکیوں کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے ، چھوڑ دی جاتی ہیں ، قتل کر دی جاتی ہیں ، دربدر پھرتی ہیں یا خودکشی کر لیتی ہے ۔ دھرم پریورتن کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے وہ جگ ظاہر ہے ۔ منصوبہ بندی اس طرح کی گئی کہ پہلے ’ لو جہاد ‘ کا ہوّا پھیلایا گیا ، کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا دھرم پریورتن کراتے ہیں ، اس کے ردعمل میں ہندو تنظیموں کی طرف سے سخت جواب آیا کہ ہم ایک ہندو لڑکی کے بدلے سو مسلم لڑکیوں کا دھرم پریورتن کرائیں گے ۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’ ایک کے بدلے سو ‘ کا نعرہ دیا تھا ۔ ملک بھر سے گزرے ہوئے چند برسوں کے دوران مسلم لڑکیوں کے تبدیلیٔ مذہب کی افسوس ناک خبریں آتی رہی ہیں ، اور ان خبروں کے درمیان یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کیا ایک مسلمان کی حیثیت سے قوم ’ ایمان کی حرارت ‘ سے مفقود ہوتی جا رہی ہے ؟
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب کوئی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کر مسلمان بنتا ہے تو مسلم قوم خوب ڈھول بجاتی ہے ، وہ جیسا کرتی ہے ویسا ہی اس کے ساتھ ہو رہا ہے تو واویلا کیوں ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ؛ معاملہ کسی کے ہندو یا مسلمان بننے کا نہیں ہے ، اس کام کو مہم کی طرح چلانے کا ہے ۔ الزام ہے کہ یہ کام سنگھ کے ذیلی ادارے سرکاری افسروں کے تعاون سے کر رہے ہیں ۔ منصوبہ بندی چاہے اِدھر ہو یا اُدھر ٹھیک نہیں ہے ۔ تبلیغ اور پرچار کی اس ملک میں چھوٹ ہے ، دھرم پریورتن کی آزادی ہے ، لیکن اب اسے بھی بھگوا رنگ دے دیا گیا ہے ’ پرچار ‘ کو جائز اور ’ تبلیغ ‘ کو ناجائز مانا جا رہا ہے ، اور ہندو بننا درست اور مسلمان بننا نادرست بلکہ جرم قرار دیا جا رہا ہے ، اور اس کا جو نتیجہ سامنے آ رہا ہے وہ خطرناک ہے ۔ ایک مثال راجستھان کی لے لیں جہاں تبلیغ کا نام لے کر چار اساتذہ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے ۔ یہ دوغلا رویہ تشویش ناک ہے ۔ اس دوغلے رویے کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ’ اوپر ‘ سے لادا گیا ہے ، لیکن یہ جو نادانی سے لڑکیاں مرتد بن رہی ہیں اس تعلق سے کام کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہ کام کسی ایک شخص یا گروپ کے کرنے کا نہیں ہے ، کیونکہ عام طور پر وہ لڑکیاں اور لڑکے جو مذہب تبدیل کر رہے ہوتے ہیں ، وہ کسی کی کیا اپنے والدین تک کی نہیں سنتے ۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کی طرف سے بچوں کو خوب چھوٹ ملی ہوتی ہے ، اور اس چھوٹ کے نتیجے میں یہ بچے باغی ہو جاتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے ؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے ۔ اس کی وجوہ جو بھی ہوں ، سنگھ پریوار چاہے جس قدر سرگرم ہو ، پر سارا قصور مسلمانوں کا اپنا ہی ہے کہ مسلمان اب اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں سمجھا پاتے کہ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت ’ ایمان ‘ کی دولت ہے ۔ وہ جو ’ ایمان ‘ کی دولت کو ’ دولت ‘ نہیں مانتے اگر یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں تو افسوس کی بات نہیں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گھروں میں بھی یہ ’ لہر ‘ہے جو خود کو ’ ایمان ‘ کی دولت سے مالا مال قرار دیتے ہیں ، مثال اوپر موجود ہے ۔ لہذا ضرورت ہے کہ مدبرانِ قوم اور دانشورانِ قوم سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی حل تلاش کریں ، یا پھر خود کو مدبروں اور دانشوروں کی صف سے باہر کر لیں ۔
شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)