اخلاقِ مصطفیٰ ﷺ کی چند جھلکیاں

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور

مالکِ کائنات اللہ رب العزت کے بعد سب سے بزرگ و برتر ، سب سے اولیٰ و اعلیٰ ،حبیب کبریا،امام الانبیا ، فخر رسل ، باعث تخلیق ہر جز و کل ، خیر البشر، محسنِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کی بے مثال شخصیت پر بے شمارکتابیں لکھی گئیں۔ مقالات اور مضامین سپردِ قلم کیے گیے اورکیے جارہے ہیں۔اورصبح قیامت تک لکھے جاتے رہیں گے۔ شعرا نے قصائد اور نعتوں کے ذریعہ آپ ﷺ سے محبت کے اظہار کو باعثِ سعادت و سرفرازی سمجھا ہے۔ مگر سچ اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ اور حق ادا بھی کیسے ہو؟ محمد رسول اللہ کی عظمت و رفعت خدا وند کریم کا ایسا عطیہ ہے جو انسان کے تصور سے ماورا ہے ۔ عاجز ہوکر انسان کو یہی کہنا پڑتاہے:

لا یمکن الثناء کماکان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

آپ کے اوصافِ جمیلہ ، آپ کے خلقِ عظیم ، حسنِ کردار اور مبارک تعلیمات کا تذکرہ قرآن کریم نے بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور آپ کے اخلاق کو’’خُلق عظیم‘‘ فرمایا۔چناں چہ فرمایا: حضور کا خلق قرآن ہے:{ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ} [القلم: 4]ترجمہ:اور بے شک تمھاری خو بڑی شان کی ہے۔

معلوم ہوا کہ کوئی بھی حضور کے اخلاق اور اوصاف کو کما حقہ بیان نہیں کر سکتا ۔ امام احمد رضاخان بریلوی فرماتے ہیں:

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری

حیراں ہوں میرے شاہ، میںکیا کیا کہوںتجھے

لیکن رضاؔ نے ختم سخن اس پہ کر دیا

خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے

خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں کو قلیل فرمایا ہے۔دنیا کا مال و متاع قلیل ہے اس کے باوجود کوئی شخص دنیا کی نعمتیں شمار نہیں کر سکتا۔ فرمانِ الٰہی ہے: تم ہماری دی ہوئی نعمتوں کو شمار نہیںکر سکتے۔ جب قلیل کو شمار کرنا غیر ممکن ہے تو جسے رب تعالیٰ’’ عظیم ‘‘کہے اس کے اوصاف کریمانہ شمار کرنے کی کس کو طاقت ہے۔

*آپ ﷺکے اخلاقِ کریمانہ:*

خلقِ عظیم وہ نعمت عظمی ٰہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم اپنے حبیب پاک ﷺ کو اس آیتِ مبارکہ میں فرمائی ہے:

*{خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} [الأعراف: 199]*

ترجمہ:درگزر کی عادت اپناؤ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں کو منھ نہ لگاؤ۔

حدیثِ پاک میںہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تونبی اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل امین ؈ سے اس بات کی وضاحت چاہی ۔ انہوں نے فرمایا :

*’’ اُوْتِیْتُ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ اَنْ تُصَلِّی مَنْ قَطَعَکَ وَ تُعْطِیَ مَنْ حَرَمَکَ وَتَعْفُوْ عَمَّنْ ظَلَمَک‘‘*

َ(آپ کو بہترین اخلاق عطاکیےگیے ہیں ،جوآپ سے قطع تعلق کرے اسے اپنے ساتھ بلائیں، جو آپ کو نہ دے آپ اسے عطا کریں،جو آپ پر ظلم کرے اسے آپ معاف کردیں۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب ﷺ پر فضل و کرم اس درجہ ہے اور آپ ﷺ کے اخلاق عظیمہاعلیٰ پایے کے ہیں کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکاراہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ا ن مراتب عالیہ کو آخری حد تک پہنچا دیا جس کے آگے بڑھنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

*’’اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق‘‘*

ْ(مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیےبھیجا گیا ہے۔( سنن ابی داؤد،جلد 2، صفحہ42)۔

حضرت حسنین نور قدسرہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا خلق عظیم کیوں نہ ہوگا جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل اقدس پر اخلاقِ عظیم و اخلاقِ کریمہ کے انوار کی تجلی فرمائی ہے۔ علامہ اسمٰعیل حقی قدس سرہ فرماتے ہیں: آپ کا خلق عظیم ہے ،کیوں کہ آپ عظیم ذات کے مظہر ہیں۔ اس لیے عظیم کا خلق بھی عظیم ہے۔ سب سے بہتر اور جامع تفسیر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ؅نے بیان فرمائی ہے۔حضرت سعد بن ہشام فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا ، اے ام المومنین! مجھے نبی اکرم ﷺ کے خلق کے بارے میں بتائیے۔انھوں نے فرمایا :تم قرآن پاک نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ،میں پڑھتا ہوں۔انھوں نے فرمایا :

فَاِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللّٰہِ ﷺ کَانَ القُرْآنْ (نبی ﷺ کا خلق قرآن ہے)(صحیح مسلم جلد اول، صفحہ 256، کتاب صلاۃ مسافرین، باب صلاۃ الیل،صفحہ746)

*نبی کریم ﷺکا عفو وصبر کی تعلیم:*

حضرت ابو ہریرہ ؄ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکرصدیق؄ کو گالیاں دیں ۔ آپ ﷺ تشریف فرما تھے۔(رسول اللہ ﷺ اس شخص کو مسلسل گالیاں دینے اور ابوبکر ؄ کے صبر کرنے اور چپ رہنے پر) تعجب اور تبسم فرمارہے تھے، پھر جب اس آدمی نے بہت ہی زیادہ گالیاں دیں(اور زبان کو روکا ہی نہیں ) تو حضرت ابو بکرصدیق؄نے اس کی بعض باتوں کو اس پر الٹ دیا اورکچھ جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ ناراضگی کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر چل دیے۔ (حضرت ابو بکر صدیق ؄ کو اس بات کی فکر لاحق ہوئی اور وہ جلدی سے معذرت کے لیے اور حضور کی ناراضگی کا سبب معلوم کرنے کے لیے آپ کے پیچھے چلے)حضرت ابوبکر صدیق ؄ حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! (یہ کیابات ہوگئی کہ) وہ شخص مجھے گالیاں دیتارہا اورآپ وہاں تشریف فرمارہے ،پھر جب میں نے کچھ جواب دیا تو آپ ناراض ہوکر اٹھ کر چلے آئے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب تک تم خاموش تھے اس وقت تک تمھارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمھاری طرف سے جوابدہی کر رہاتھا، پھر جب تم نے خود جواب دینا شروع کردیا تو وہ فرشتہ تو چلا گیا اور شیطان بیچ میں آگیا(کیوں کہ اسے امید ہوگئی کہ وہ لڑائی کو اور آگے بڑھا سکے گا)اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے ابو بکر! تین باتیں ہیںجوسب کی سب بالکل حق ہیں۔

(1) پہلی بات یہ کہ جس بندہ پرکوئی ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ محض اللہ عز و جل کے لیے اس کودرگزر کرے(اور انتقام نہ لے) تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کی بھرپور مدد فرمائے گا(دنیااورآخرت میں اس کو عزت دے گا)(2) دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص صلہ رحمی کے لیے دوسروں کودینے کا دروازہ کھولے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس کو اور زیادہ دے گا۔ (3) تیسری بات یہ ہے کہ جو آدمی (ضرورت سے مجبور ہوکر نہیں) اپنی دولت بڑھانے کے لیےسوال اور گداگری (بھیک مانگنے کا) کا دروازہ کھولے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دولت کو کم کر دے گا۔(مسند احمد، جلد2، صفحہ436،مشکوٰۃ باب الرفق،فصل:3؍صفحہ 433)

انصاف کے ساتھ ظلم کا بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن فضیلت و عزیمت کی بات یہی ہے کہ بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود محض اللہ کے لیے معاف کردے تو یہ ثواب و اجر کی بات ہے۔ حضرت عائشہ؅کی روایت ہے : اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی کو سزا نہیں دی، لیکن جب اللہ کے حدود کو کوئی توڑتا تو آپ ﷺ اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے سزادیتے تھے۔(بخاری شریف، جلد2،صفحہ103)

*رسول اللہ ﷺ کا عالمی پیغام:*

حضرت عبداللہ ا بن عمر؆سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ؛یا رسول اللہ !میں اپنے خادم (غلام یانوکر) کا قصور کتنی بار معاف کروں؟ آپ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے ۔ اس نے پھر وہی عرض کیا،یا رسول اللہ !میں اپنے خادم کا قصور کتنی بار معاف کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ ہر روز ستر بار(جامع ترمذی، جلد 2،صفحہ16)

سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ حضور!اگر میرا خادم باربار قصور (غلطی) کرے تو کہاں تک اسے معاف کروں اور کتنی بار معاف کرنے کے بعد اس کوسزا دوں۔ آپ ﷺ نے جواب دیاکہ اگر بالفرض روزانہ ستر(70) بار بھی قصور کرے تو تم اس کو معاف ہی کرتے رہو۔ آپ ﷺ کامطلب یہ تھا کہ قصور کا معاف کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کی حد مقرر کی جائے بلکہ حسنِ اخلاق، عفو و درگزر اور رحم کا تقاضا یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ روزانہ ستر بار سے بھی زیادہ غلطی کرے تو اس کو معاف ہی کر دیا جائے۔ ستر کا عدد تحدید کے لیےنہیں بلکہ تکثیر کے لیےہے۔ جتنی دفعہ بھی ہو قصورمعاف کر دیا جائے۔ آپ ﷺ کی سیرت و طریقۂ زندگی ہم تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ ٔ عمل کی حیثیت رکھتی ہے اور تا قیامت آپ ﷺ کا اسوہ ٔ حسنہ ہمارے لیے قابلِ عمل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب نہ صرف سیرت رسول پڑھیں بلکہ عمل بھی کریں تاکہ دنیا و آخرت کامیاب ہو۔09431332338 hhmhashim 786 @gmail.com, حا فظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ھا جرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشید پور پن کوڈ 831020 جھاڑ کھنڈ

Leave a comment