دین مبین کے لۓ قربانی ابراھیم علیہ السلام سے حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تک

 

 سعیدپٹیل جلگاؤں

 اسلامی کے بارہ مہینوں کا آغاز اور اختتام دین مبین کےلۓ دی گئیں عظیم الشان دو قربانیوں سے ہوتا ہے ۔ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اس قربانی کو اسلامی مہینوں کے اختتام پر یعنی ذلحجہ کی دس تاریخ کو حکم الہیٰ کی تکمیل کے لۓ اپنے لخت جگر فرمابردار فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں بارگاہ اقدس میں پیش کی گئ تھی۔یہ قربانی دین مبین کے قیام اور نفاذ کے لۓ تھی جس میں اپنے نفس کی قربانی اپنے رب العزت کے حضور پیش کی گئ تھی۔جو مادی اغراض و کسی ادنیٰ شائبہ سے بالا تر ہوکر پوری ہوشمندی اور جذبہء خداوندی کی خوشنودی کے تحت انجام دی گئ تھی۔اس کے بعد ایک طویل فہرست ہے قربانیوں کی جو دین مبین کے قیام اور بقاء کےلۓ دی گئیں ہیں۔ہم کون کون سی اور کس کس کی قربانی کا ذکر کریں۔دوسری عظیم الشان قربانی کربلا کے میدان میں محسین انسانیت تاج دارے مدینہ حضور اکرم محمدﷺ کے جگر کا ٹکڑا نواسہ رسول ﷺ حسین اور آپ کے خاندان کے جاں نثاروں نے اپنی جانوں کا وہ لا ثانی نذرانہ پیش کیا اور بتا دیا کہ فاسق اور باطل کسی قیمت پر قبول نہیں۔یہ قربانی اپنے پورے خاندان کی اپنے تمام جذبات خواھیشوں تمناؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی۔جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ اللہ جلّہ شانہ کی زمین پر اسی کے حکم کی حکمرانی چلیں گی۔ کسی فاسق اور منافق کی حکمرانی قبول نہیں۔اس خانوادے نے میدان کربلا میں ایک عظیم الشان امتحان میں صبر وشکر کا دامن تھامے آخرت کی نیکی کو حاصل کرنا اور اپنے رب کی بڑائ کا اعلان کرناتھا۔ان دونوں قربانیوں کے پس منظر میں اگر ہم اپنا جایزہ لیں۔تو پتہ چلتاہے کہ ہم صرف رسمی محبت اور عشق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ہم اپنی کامیابی اور کامرانی نوافل اور فضائل میں تلاش کرتے ہیں ۔ہم اپنے نفس و خواہیشات کی قربانی سےدور بھاگتے ہوۓ اس کے برعکس نفس اور خواھیشات کی غلامی میں مست ہوجاتے ہیں۔ان دو عظیم واقعیات کا اصل پہلو یہ ہے کہ ہم اللہ جلّہ شانہ کے امر کے آگے اپنی مرضی کو قربان کرتے ہوۓ ملّت اور جمعیت کے لۓ کچھ کرنے کاعزم کریں۔داعی کا کردار اداکریں۔انسانیت کے روبرو پوری طاقت سے اسلام کی تعلیمات کوپیش کریں۔انسانیت کی دل کھول کر خدمت کریں۔اپنےنفس کو برائ اور گناہ سے پاک کرکے اپنی اصلاح اور محاسبہ کرتے ہوۓ اپنی زندگی میں امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی طرح اپنے اندر انقلاب پیداکریں۔ یہی آج کے دور میں درکار ہے۔

Leave a comment